نور مقدم کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر بحث: ’والدين کو اپنے بیٹوں پر بھی اتنی ہی نظر رکھنی چاہیے جتنی وہ بیٹیوں پر رکھتے ہیں‘


قتل

دو روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 27 سالہ نور مقدم کے قتل کے بعد اس واقعے سے جڑے کئی پہلو سوشل میڈیا پر زیر بحث آ رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف اس کیس سے جڑے معاشرتی پہلوؤں پر بات کی جا رہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ کیا ہمارا ملک خواتین کے لیے محفوظ ہے یا نہیں۔

اسی حوالے سے صحافی مبشر زیدی نے بھی اپنی رائے کا اظہار ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا جس میں انھوں نے لکھا کہ ’میں تمام والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کو کسی کے گھر رات گزارنے کی اجازت مت دیں کیونکہ باہر بے شمار حیوان موجود ہیں جو شکار کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ نور مقدم قتل کیس میں درج ایف آئی آر کے مطابق نور کے والد نے بتایا کہ ملزم ظاہر جعفر کے والد سے ان کی فیملی کی ذاتی واقفیت ہے یعنی دونوں خاندان ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ نور کے والد نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی بیٹی 19 جولائی کو گھر سے گئیں تھیں اور انھوں نے بتایا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں تاہم بعدازاں انھیں پولیس کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ نور کو قتل کیا جا چکا ہے۔

شاید اسی تناظر میں صحافی مبشر زیدی نے ٹویٹ کرتے ہوئے والدین سے گزارش کی کہ وہ اپنے بچوں کو کسی کے گھر رات گزارنے کی اجازت نہ دیں۔

اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ بات زیر بحث آئی کہ کیا یہ اصول بیٹیوں کے لیے ہے یا پھر اس کا اطلاق بیٹوں پر ہوتا ہے۔

بیشتر صارفین کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر والدین کی جانب سے تمام تر پابندیاں اور سختیاں لڑکیوں پر لگائی جاتی ہیں جبکہ وہ اپنے بیٹوں کی غلط باتیں بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔

بینا شاہ نے اس ٹویٹ کا جواب میں سوال کیا کہ ’کیا والدین کو بیٹوں کو بھی کسی کے گھر رات گزارنے پر روکنا چاہیے یا پھر یہ پابندی لڑکیوں کے لیے ہے؟‘

فاطمہ کہتی ہیں کہ ’گھر سے باہر موجود حیوانوں کو تو آپ ایسے روک سکتے ہیں لیکن جو حیوان گھر کے اندر موجود ہیں ان کا کیا کرنا چاہیے۔‘

جبکہ ماہا کہتی ہیں کہ ’خواتین پر مزید پابندیاں لگانے سے بہتر ہے کہ ان حیوانوں پر پابندی لگائیں جو ایسے عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم ایسے ہی اپنے بچوں پر پابندیاں لگاتے رہے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی خوف میں مبتلا رکھیں گے۔ اس واقعے میں نور کا کوئی قصور نہیں تھا۔ جو بھی غلطی ہے وہ ملزم کی ہے۔‘

یہاں کئی صارفین کی جانب سے اس بات کا بھی تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ نور کی عمر 27 برس تھی وہ کوئی بچی نہیں تھیں اور انھیں کہیں آنے جانے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک صارف نے لکھا کہ غیر شادی شدہ لڑکیاں ایسی کم عمر بچیاں نہیں ہوتیں جنھیں نگرانی کی ضرورت ہو، شاید مردوں کی نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے۔

بیشتر خواتین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں زیادہ تر ایسے واقعات کے بعد اس شخص کو قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ لڑکیوں کو قصوروار ٹھہرانے کے بجائے ضروری ہے کہ والدین اپنے بیٹوں پر گہری نظر رکھیں۔

ٹویٹر صارف صباحت نے لکھا کہ ’پاکستانی والدین کو اپنے بیٹوں کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ انھیں اپنے بیٹوں کے اوپر اتنی ہی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جتنی کہ وہ اپنی بیٹیوں پر رکھتے ہیں۔ والدین کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ ہر وقت کیا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بیٹوں کو بھی رات کو باہر جانے سے روکنا چاہیے۔‘

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے مصنفہ عائشہ صدیقہ نے ٹویٹ کی کہ ‘والدین سے اصل گزارش یہ کرنی چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے کسی قسم کے نشے کی لت میں مبتلا نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں پرتشدد رویہ پایا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم: ’خواتین کو بغیر سزا کے ڈر کے قتل کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے‘

’مرجائیں گے لیکن بیٹی کے خون کا سودا نہیں کریں گے‘

گھریلو تشدد سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

کئی صارفین نے مردوں میں پائے جانے والے پرتشدد رویوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ ہمارے ارد گرد ہی پائے جاتے ہیں لیکن ہم انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں جو انتہائی غلط عمل ہے۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں تو اسے نظر مت کریں بلکہ دوسروں کو اس سے خبردار کریں۔

اسما علی نے لکھا کہ ’آپ بچوں کو سمجھا سکتے ہیں غلط، سہی اور احتیاطی تدابیروں کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ نور بھی نوجوان لڑکی تھی اور اس نے بھی اس بات کا خیال کیا ہو گا لیکن وہ نہیں جانتی ہو گی کہ اگلے شخص کی نیت کیا تھی۔‘

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جاری اس بحث میں زیادہ تر خواتین کی یہ رائے ہے کہ مقتولہ نور بالغ لڑکی تھی اور انھیں کہیں آنے جانے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں اس بحث کو چھوڑ کر اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ہم خواتین کے لیے معاشرے کو کیسے محفوظ بنا سکتے ہیں اور اپنے بیٹوں کی تربیت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس کے برعکس کئی صارفین کی یہ رائے ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ نہیں بنا سکتے ہیں اس لیے ہمیں خود ہی پابندیوں میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو بچانا ہے۔

ٹویٹر صارف عابدہ کہتی ہیں کہ ’بچپن میں ہمارے والد ہمیں کبھی بھی کسی کے گھر رات گزارنے کی اجازت دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے بہترین دوستوں کے ساتھ بھی نہیں۔۔۔ لیکن اب میں اس بات کو سمجھتی ہوں اور شکر گزار ہوں والد کی کہ یہ ان کی دانشمندی اور ہماری حفاظت کی وجہ سے تھا۔‘

ڈاکٹر سمیہ راحیل نے لکھا کہ ’مجھے مغرب کے بعد کسی سہیلی کے پاس رہنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ میں نے بھی اپنے بچوں کے ساتھ خود ہی دوستی بنائے رکھی کہ ہم آپس میں ہی دوست ہیں۔ اب سوچتی ہوں کتنی عافیت کا زمانہ تھا۔ سب بچوں کو اللہ اپنی پناہوں میں رکھے۔‘

جبکہ شاہ رخ وانی نے لکھا کہ ’مخصوص وقت کے بعد گھر سے نہ نکلنا اور کسی کے گھر رات نہ گزارنے کہ اجازت نہ دینے کی بات کرنے والے زیادہ تر لوگ فکر مند والدین کی حیثیت سے کہہ رہے ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس واقعے کی خالصتاً ذمہ داری وہ مبینہ قاتل اور اس کی پرورش کرنے والے معاشرے پر ہے اور اس بات پر ہمیں سب سے زیادہ توجہ دینے کہ ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32535 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp