الزام تراش نسلیں


وہ جو کہتے ہیں ٹک ٹاک نے ہمارے نوجوانوں کو خراب کیا ہے۔ تو ان سے پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں۔ کہ اس اپلیکیشن کی آمد سے پہلے اپ کے نوجوانوں نے کون سی ایجادات کی ہیں جو اب اس سلسلے پر بریک لگے گی؟ اگے سے وہ مخاطب ہوا ”کیسے کرتا ایجادات۔ انگریز نے تو ہماری نئی نسل کو انڈرائیڈ فون جو پکڑایا ہے۔ صبح شام سے بے خبر کیا ہوا ہے ہمارے نوجوان کو۔ اب تو اس کو خود سے بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بھلا کیسے وہ سوچ سکتا ہے کسی مفید کام کا۔ کیسے وہ اجتماعی بہبود کا خیال کر سکتا ہے۔ شیطانی ایجاد ہاتھ میں تھما کر مغرب سکون کی سانس لے رہا اب۔
میں نے سر ہلا کر پوچھا۔ ہاں بھائی لیکن یہ تو ابھی کی بات ہے۔ اس سے پہلے بھی ہمارا نوجوان وہ نہ تھا جس کا قائد اعظم خواب دیکھتا تھا۔ سمارٹ فون تو مارکیٹ میں آئے ہوئے کم عرصہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے شاہین صفت نوجوان اگر کاہل ہو بھی گیا ہے تو تاریخی طور پر کیوں ہمارا مغرب سے اتنا پیچھے رہ جانے کی کیا جواز ہے؟

وہ لب کشا ہوا ”ہمارا تو مسئلہ یہی ہے۔ کہ یہود روز اول سے ہمارے پیچھے پڑے ہیں۔ سازش اب کرتا ہے۔ نتیجہ ان کو سو سال بعد ملتا ہے۔ کبھی ایک طریقے سے تو کبھی دوسرے طریقے سے ورغلا رہا۔ موبائل فون سے پہلے اقبال کے شاہین کو سنیما کی لت لگوائی گئی۔ دن رات فلمیں دیکھتا رہا۔ قاسم، غزنوی، اقبال، قائد کے بجائے وحید مراد، دلیپ کمار کو اپنا ہیرو مانتا رہا۔ سنیما کلچر نے تو جیسے فکری صلاحیت چھین لی تھی ہمارے نوجوان سے۔

میں نے اس کو کاٹتے ہوئے کہا۔ ہاں اپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن سینما کلچر سے پہلے بھی اقبال کے شاہینوں کا کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ نہ سائنسی تحقیق میں، نہ فلسفہ میں اور نہ ہی کسی دوسری معاشرتی تعمیر و ترقی میں؟ وہ انکھیں پھاڑتے ہوئے نہایت وثوق سے بولا۔ ”بھائی تاریخ اٹھا کے دیکھ لو پتہ چلے گا کہ ہمارے نوجوان کو سیاسی سرگرمیوں میں دھکیلا گیا تھا۔ وہ زندہ باد مردہ باد کے نعروں میں مگن رہا۔ اس کو اپنی کامیابی کسی سیاستدان کی کامیابی یا اس کی دفاع میں مضمر دکھلائی گئی۔

اور یہ کام بڑی انہماک اور طریقے سے کروایا گیا۔ کام ادھر ہوتا رہا۔ لیکن منصوبے کہی اور بنتے رہے۔ سازشوں کی نذر ہو گیا ہے ہمارا شاہین صفت نوجوان۔ اس کی تعمیری سوچ کو تخریبی کارروائیوں میں لگوایا گیا ہے۔ اس کو ٹوکتے ہوئے میں نے مزید جاننے کی جستجو میں بات اگے بڑھا کر کہا اقبال کا شاہین تو خود اقبال کے لئے بھی ایک خیالی نوجوان تھا۔ جو کبھی تھا نہیں وہ۔ بس اقبال کی خواہش تھی کہ اس کا شاہین ستاروں پہ کمند ڈالے۔

اس نے فوراً لمبی سانس لے کر میرے ہاں میں ہاں ملا کر بولا ”کاش اقبال کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو شاید اپنی خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے۔“ میں نے دھیمے سی آواز میں پوچھا۔ اقبال کی موت بھی کوئی سازش تھی؟ وہ بولے۔ نہیں۔ البتہ قائد رح کی موت بہت بڑی سازش تھی۔ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہونے سے جتنا نقصان ہندووں کو ہوا تھا۔ اس سے زیادہ نقصان قائد کی سازشی موت سے پاکستان کو ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس موضوع کو اگے بڑھا دیتا، میں نے اس کی بات کو ٹال کر پوچھا کہ اپ کو پتہ ہے پاکستان میں پہلی فلم کون سی بنی تھی؟

اس نے جواب دیا۔ ’تیری یاد‘ جو 1948 میں ریلیز کی گئی تھی۔ جی بالکل ٹھیک جواب دیا اپ نے۔ ذرا یہ بھی بتائے گا دنیا کی اولین کمرشل، پبلک مووی خو جدید شکل میں تھی کب ریلیز ہوئی تھی؟ اس نے نفی میں سر ہلا کر اشارہ کیا۔ 1906 میں، میں نے جواب دیا۔ پاکستان سے کوئی 42 سال پہلے۔ اس کی حیران انکھیں صاف صاف بتا رہی تھیں کہ میں یہ سوال کیوں پوچھ رہا ہوں۔ اس کو مزید ورطہ حیرت میں ڈالتے ہوئے میں نے پھر پوچھا۔ بھائی موبائل فون کب بنا تھا۔

وہ بولا 1970 کی دہائی میں۔ ’پاکستان میں کب پہنچا ہے یہ طاغوتی آلہ؟ وہ بولا نہیں پتہ۔ میں نے کہا 1990 میں۔ سمارٹ فونز، انڈرائیڈز وغیرہ تو نئی بات ہے اس ملک میں۔ اس سے رہا نہیں گیا۔ میری بات کو قینچی مارتے ہوئے بولا۔ بحث کو کہاں سے کہاں لے گئے ہو۔ ان باتوں کا اس مباحثے کا کیا لینا دینا۔ میں نے کہا بڑا تعلق ہے میرے بھائی۔ بولا وہ کیسے۔ میں نے کہا۔ ذرا غور کیجیئے گا۔ موبائل، سنیما اور باقی دوسرے تمام ایجادات ہم تک پہنچنے سے پہلے موجدوں کی نسلیں کوئی آدھی صدی تک خود استعمال کرتے رہے۔ لیکن ان کے گمراہ نوجوان کبھی بھی علم کی روشنی سے نہیں بھٹکے۔ ہر نئی فلم ان کے بکس آفس پر اربوں روپے کماتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے وہ تحقیقی عمل سے عاری نہ ہوئے۔ انڈرائیڈ فونز سے وہ کما بھی رہے ہیں اور علم و ادب کا بے نظیر آلہ بھی بنائے رکھا ہے۔ مجال ہے کبھی اس کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی بے حسی اور کام چوری چھپائی ہو۔ ایک ہم ہے جو کام خود نہیں کرتے۔ پھر ناکامی کا سارا کچرا کسی دوسرے کے سر ڈالتے ہیں۔ جب تک ہم اس الزام تراشی کی عادت کو پس پشت ڈال کر اپنا احتساب سچے دل سے نہیں کریں گے۔ تب تک ہماری آنے والی نسلیں یوں ہی الزام تراش رہیں گی۔
ارے یار! تم کس کی بات کر رہے ہو۔ وہ خاموشی کو توڑتے ہوئے گویا ہوا۔ وہ جو 14 ویں صدی تک اندھیروں میں رہے۔ اس قوم کو گلوریفائی کر رہے ہو۔ جن کے آبا ؤ اجداد نہاتے بھی نہیں تھے۔ اور اگر کوئی اتفاق ”نہاتا بھی تو باقی شک کرتے کہ مسلمان تو نہیں ہوا۔ یہ بات سن کر مجھے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ سوئے ہوئے سے بات کر رہا تھا۔ میں نے اس سے عرض کی۔ کہ 21 ویں صدی میں بھی اپ ماضی بعید میں جی رہے ہو۔ دنیا کے ہم قدم چلنا ہے تو۔ دنیا کی برابر رفتار پکڑو۔ جاگنے کی کوشش کرو۔ اور میں اس کی کھوپڑی پر آہستہ سا چانٹا لگا کر چلا آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments