ویتے نے کہا تھا


اس کا بچپن بھی کیا منہ زور تھا کچھ نیا کر دکھانے کی دھن میں سر دھنتا کبھی نٹ کھٹ شرارتوں میں اپنے خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈتا پھرتا تو کبھی ننگے تلووں سے گاؤں کی راہوں پہ بچھے کانٹے چنتا پھرتا، کبھی دریا کی موجزن لہروں سے پنجہ آزمائی کرتا نظر آتا تو کبھی دوڑ کے مقابلوں میں اپنے ہمجولیوں کی ٹولیوں کی ٹولیوں کو پچھاڑتا چلا جاتا، کبھی شجر پیمائیوں کے ذوق میں لنگوروں کی چھلانگ پھلانگ کو آئینے دکھاتا ٹہنوں پہ کودتا پھرتا، تو کبھی کمان کے چلے سے تربوزوں کے کھیتوں پر منڈلاتے کووں پر تیر اندازیاں کرتا، وقت کی گزران کے ساتھ نظر شناسوں کے نظر انتخاب میں نہ آنے کا دکھ عنفوان شباب کی جولانیوں سے بغلگیر ہوتا، عقلی سوچوں کی حدود سے پارجنون کی پل صراط پہ دوڑتا، زینہ در زینہ محرومیوں کے رخنوں میں پاؤں گھسیڑتا، بجلی کے لگے نزدیکی کھمبے پر چڑھ دوڑا اور گیارہ ہزار وولٹیج کی ننگی تاروں میں ہاتھ ڈال کر ایسی فلک شگاف چیخ لگائی کہ پورے کا پورا گاؤں دوڑا چلا آیا۔

پھر ننگی آنکھوں نے منفرد نظر آنے کی ننگی دھڑنگی خواہش کو سامنے تڑپتے دیکھا۔ ہر سو ہر جانب ویتا ویتا ہونے لگی، کہیں سے ہائے کی صدائیں تو کہیں سے وائے کی کراہیں ایک دوسرے کے گلے میں ڈالے بانہیں ایسی فریاد کناں ہوئیں کہ پورا شہر دست دعا بن کر ویتے کی زندگی کی بھیک مانگتا گڑگڑانے لگا۔ دوستوں و سہیلیوں کے ان گنت ہاتھوں اور ہتھیلیوں سے اٹھتی دعائیں بالآخر موت کے منہ سے نوالہ چھیننے میں کامیاب ہو گئیں۔ یوں ویتا صاحب ایک بازو سے تو محروم ہو گئے لیکن زندہ و سلامت واپس آ گئے

ہزاروں برس کی تہذیب و تاریخ کا رازداں سندھو دریا نہ جانے کتنی بربادیوں و آبادیوں کے قصے کہانیاں کندھوں پہ اٹھائے اپنی روانیوں کی تار میں بہتا چلا آ رہا ہے۔ جہاں اس نے سونے کی چڑیا کہلاتی دھرتی پر میلی آنکھوں والے کتنے کرگسوں اور شاہینوں کو جھپٹتے دیکھا وہاں اس نے مٹی کی تہوں ے سر نکالتی زندگی کو کھیتوں اور کھلیانوں میں لہلہاتے بھی دیکھا۔ انہیں آبادیوں میں سے ایک دریا خان نامی شہر اس کے مشرقی کنارے پر روایتی و ثقافتی ورثے کو سنبھال سنبھال رکھتا دور جدید کی جدتوں سے ہم آہنگی کے لئے کوشاں نظر آتا ہے۔ اللہ یار ساقی، عابد سیمابی، اسد جعفری، صغیر ملک، حسنین زیدی، نثار شاہ، شکیل ملک، نذیر ملک، امیر کہاوڑ، تنویر ملک، ملک گلزار، پرویز سیال، مختار حسین اور ٹیڈی شاہ کے جنم بھومی کی ادبی و سماجی مسافتوں کی پیمائش کسی اور دن پہ اٹھا رکھتا ہوں۔

ویتے نے صحتیابی کے بعد بازو کی محرومی کو شکست دینے کی ایسے ٹھانی کہ مذکورہ بالا شہر کے عین وسط میں واقع سکول کے ساتھ ہی چھوٹی سی دھوبی کی دکان بنا ڈالی

لکڑیوں کے گٹھ اٹھا لانا، ان کے انگارے بنانے کے لئے آگ دہکانا، دہکتے انگاروں سے استری کا پیٹ بھرنا، پھر اپنے کام پر جت جانا کہ نہ صرف ملبوسات کے سارے کس بل نکال دینا بلکہ معمولی سی شکن تک کا صفایا کر ڈالنا، یوں مشقت طلب شعبہ زندگی میں ویتا صاحب کارفرما نظر آنے لگے۔ ایک دن اپنے سرکاری دورہ دریا خان کے دوران ڈی سی بھکر نے ویتے کو محنتوں و مشقتوں کے ایک ہاتھ سے سلسلے جوڑتے دیکھا تو گاڑی سے اترے۔ دھوبی کی کٹیا نما دکان میں داخل ہوئے، ویتے کا کندھا تھپتھپایا اور اعلان کیا کہ سامنے روڈ پر ضلعی حکومتی زمین تا حیات ویتے کے اختیار میں دی جاتی ہے۔ یوں ویتے کی دکان تنگ گلی سے نکل کر کشادہ سڑک کے کنارے آ گئی۔

دکان کے سامنے ایک بڑا شجر جس کے خشک گرتے پتوں کو علی الصبح جھاڑو دینے سے دن کا آغاز کرنے والا ویتا گو کہ ان پڑھ تھا لیکن تمام ملک کے نامور اخبارات لگوا رکھے تھے۔ وہ اخبارات اس کے لگائے شجر کے نیچے ترتیب سے رکھی چارپائیوں کے بیچ میز پر رکھے ہر پڑھنے والے کے لئے مفت دستیاب تھے۔ لوگ آتے اخبارات پڑھتے گپ شپ کرتے چلے جاتے ویتا اپنے معمولات میں محو رہتا لیکن اگر کوئی تا دیر بیٹھا بس وقت کا ضیاع کر رہا ہوتا تو ویتا چپکے سے جھاڑو دینا شروع کر دیتا اور یوں اس کے ناپسندیدہ شخص کو چار و ناچار اٹھنا پڑتا۔ اس کی خدمات میں سے ایک نہایت قابل ذکر کہ ہمراہی سکول کے طلبہ کے لئے سائیکل سٹینڈ اور اس کی کڑی نگرانی کی مفت سہولت میسر تھی۔ لیکن اس میں ایک اصول جس پہ سختی سے عمل کرتا نظر آتا کہ سکول کھلتے وقت سائیکلیں کھڑی کرنے والوں کو سکول چھٹی کے وقت سے پہلے سائیکل اٹھانے کی اجازت ہرگز نہ تھی۔

ویتے کی دکان کبھی سیاسی ٹاک شو کا منظر پیش کرتی تو کبھی مشاعرے کا روپ دھار لیتی، کبھی منچلوں کے قہقہوں سے گونج اٹھتی تو کبھی ٹیڈی شاہ اور مختار حسین کی زبانی ویتے کو اخبارات کی خبریں سنائے جانے کا خبرنامہ معلوم ہوتی، الغرض ہر طبقے، درجے اور مزاج کے لوگوں کے رنگ میں ڈھلتی یہ دکان ایک ایسا پلیٹ فارم تھی کہ لوگ اپنی ڈاک کا ایڈریس ویتے کو مل کر ملے لکھا کرتے تھے۔ پینتیس برس سے زائد محیط عرصے بعد ویتے کی آخری ہچکی تک یہ سلسلہ خدمات جاری رہا۔

معروف ماہر تعلیم صغیر ملک مرحوم امتحان میں کئی مواقع پر جب انہیں کسی فلسفی اور اس کا قول لکھنا مقصود تھا تو انہوں نے وہاں لکھ دیا، ویتے نے کہا تھا، اور اس طرح یہ جملہ احباب میں پذیرائی پانے لگا۔ ان پڑھ، معذور نے تعلیم سے جڑے لوگوں اور سرگرمیوں سے ایسا رشتہ جوڑا کہ کوئی بھی لطیف و دانشمندانہ بات کو اس سے جوڑتے ہوئے کس قدر تسکین ہوتی ہے، ویتے نے کہا تھا۔

اپنا ایک شعر ویتے کے نام اور اجازت۔
تم گئے ہو تو ٹھہری عادت ہر اک سے نظریں چرا کے ملنا
کہیں بتا دیں نہ حال آنکھیں تمہارے قصے سنا رہی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments