قصہ 25 ہزار میں ٹرانسفارمر لگوانے کا


عید قربان کے مبارک موقع پر جب مختصر چھٹیاں لے کر گھر واپسی ہوئی تو میرے شہر جامپور میں توقع کے برخلاف موسم ٹھنڈا تھا۔ گھر ہونے کی راحت ایسی تھی کہ دو دن تو حج اور عید کا پہلا دن بس نیند ہی میں گزرا۔ موسم نے کروٹ بدلی اور فضا میں پھیلی میں خوشگواریت نے حبس کا روپ دھارا تو ساتھ ہی ٹرانسفارمر جواب دے گیا۔ عید کی شام ہو اوپر سے حبس اور جامپور جیسے شہر میں تو خراب ٹرانسفارمر ٹھیک کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

بہرحال میپکو کے شکایت سیل کے نمبر پر کال کی، خدا خدا کر کے میپکو کی کمپلینٹ ڈیلنگ کا عملہ ہماری سات پرکھوں پر احسان عظیم تھوپتے ہوئے آن پہنچا۔ انہوں نے اپنی سی کوشش کی مگراس شعر کے مصداق کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، ٹرانسفارمر نے اپنی مرمت کا زوردار دار دھماکے کے ذریعے اظہار ناراضگی کیا۔ دھماکے ہوتے ہی حیرت انگیز طور پر عملے نے سکھ کا سانس لیا، سامان اٹھایا ہاتھ جھاڑے، موقع پر موجود افراد جو احسان کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے کی منت سماجت کے بعد ٹھنڈا پانی (مشروبات) پی کر چلتے بنے۔

مچھروں کی بہتات اور شدید حبس میں گھر کے صحن میں کروٹیں بدلتے رات کٹی تو مشن ٹرانسفارمر بحالی کا دوبارہ سے آغاز کیا گیا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ضلع راجن پور کی تحصیل جامپور کی فیصل، گوپانگ کالونی میں سہولیات زندگی کے فقدان کو دیکھتے ہوئے عنقریب شاید یونیسکو اس علاقے کو آثار قدیمہ کا درجہ دے دے۔ پینے کا پانی زہریلا، سیوریج سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے گلیاں جوہڑ اور تالاب (تبھی مچھر اور مکھیاں پرکھوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور بلاشبہ ہم ایسی حشرات کی بقاء کے لئے ایوارڈ یا گنیز بک میں نام ڈالے جانے کے حقدار ہیں ) بجلی کے پول نہ ہونے کی وجہ سے دور دور سے تاریں لاکر کم وولٹیج میں زندگی گزارنے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ ہندو معاشرے کی طرح ویسے تو جنوبی پنجاب کے اکثر چھوٹے شہروں میں ذات پات کا بہت فرق رکھا جاتا ہے۔

مگر جیسا کہ میں نے پہلے بولا کہ ہم پرانی روایتوں کے امین ہیں تو یہاں بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت مکین اپنی ذات پات کے لحاظ سے سہولیات مانگتے اور ان پر ہی صبر شکر سے اکتفا کرتے۔ تو کالونی کے بڑے اور ٹھاٹ باٹ والے افراد نے تو ٹیکٹسائل مل (غیرقانونی) سے کنکشن حاصل کیے اور اپنے ائر کنڈیشنرز (وجہ ٹرانسفارمر خرابی) کی ٹھنڈی ہواؤں میں سو گئے۔ اب چونکہ بڑے لوگ سوتے بھی تاخیر سے ہیں اور جاگتے بھی تاخیر سے ہی ہیں، ایسے میں رعایا یعنی کہ میرے جیسے مزدور پیشہ اور ذات والے افراد تو اس انتظار میں تھے کہ صاحبان کالونی جاگیں گے اور ہم ان کی منت سماجت کرتے ہوئے کردہ ناکردہ گناہوں کی معافی مانگ کر وا کر میپکو کے صاحب بہادران کو دوبارہ سے بلا کر ٹرانسفارمر کی تبدیلی کی درخواست کریں گے۔

تعلیم کے زیور سے آراستہ چند منچلوں نے تو نچلی ذات کے ہونے کے باوجود وزیراعظم سٹیزن پورٹل، کچھ نے میپکو کے شکایت سیل پر پھر سے شکایات کیں۔ جونہی عملہ آیا انہیں ہاتھوں پر بٹھا کر ٹھنڈا پانی پلایا گیا، ایک بار پھر عملہ نے ماہرانہ انداز میں ٹرانسفارمر کا جائزہ لیا، ایسے جیسے آرتھو پیڈک مضروب کا جائزہ لے رہے ہوتے اور ساتھ ہی اعلان صادر کیا کہ ٹرانسفارمر صاحب اپنی ابدی نیند سو چکے ہیں اب نئے ٹرانسفارمر کے بغیر کام نہیں چلے گا۔

اس دوران میں کالونی کی اونچی ذات والے بھی جاگ کر آچکے تھے اور ٹھٹھے اڑانے لگ گئے کہ ہاں جی ہمارے بغیر بنوا لیا ٹرانسفارمر؟ اب بھگتو۔ گرمی اور نیند کا ستائے مجھ مظلوم نے تو پروگرام بنایا کہ کیوں نہ عید پر دوستوں کی طرف سفر کیا جائے اسی نیت سے میں نے اپنے دوست غلام مرتضی بلوچ جو پاک آرمی میں ہوتے کی طرف بجلی بحال ہونے تک رہنے کا پروگرام بنایا۔ جامپور کے شمال میں دوردراز کے علاقے سلام پور میں اپنے قریبی دوست اور کلاس فیلو نازک فرید بھانی کی طرف بمعہ شفیق خان لغاری (یوسی چیئرمین) عمران خان گوپانگ اور دیگر حاضری دی اور غلام مرتضی کی طرف وارد ہوئے، جہاں انہوں نے خوب تواضع بھی کی اور ہم نے بھی اونچی ذات کے لوگوں کی محفل کا لطف لیا۔ اسی اثناء میں شام ہو گئی مگر ٹرانسفارمر کی بحالی کے تو آثار ہی نہیں تھے، ایک اور رات مچھروں کے رحم وکرم پر گزارنے کا خیال آتے ہی میرے اوسان خطا ہو گئے۔

تبھی میں نے فیصلہ کیا کہ اتنا وقت ہو گیا میڈیا میں وقت گزارتے ہوئے کیوں نہ کسی کو کہہ کہلوا کر سفارش ہی کروا لیں، اسی سلسلے میں ایک عزیز از جان کولیگ کی خدمات لیں اور انہیں یہاں کے کرتا دھرتا لائن سپرنٹنڈنٹ غلام مصطفی ڈھوکی (جو کہ لائن مین سے ترقی کرتے ہوئے ایس ڈی او تک بھی پہنچے تھے ) کا نمبر دیا اور گزارش کی کہ یہ مسئلہ حل کروا دیں۔ ڈھوکی صاحب جو کہ واپڈا ہائیڈرو یونین کے سابقہ زونل چیئرمین رہ چکے ہیں کا رعب و دبدبہ میپکو چیف سے بھی بلاشبہ زیادہ ہے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ ٹرانسفارمر ہیں نہیں کوشش کر رہے، میرے پاس اتنا ٹائم نہیں جس سے پوچھنا ہے پوچھ لیں نمبر بند کر دیا۔

اب جنہوں نے فون کیا وہ میری طرح محکوم تو تھے نہیں وہ لاہور جیسے شہر کے پلے بڑھے انہوں نے سیدھ نیپرا میں اپنے کزن کو کال کی اور ماجرا بتایا۔ ان کے کزن نے اسی وقت جناب غلام مصطفی ڈھوکی صاحب کو کال کی اور یوں وہی ڈھوکی صاحب جو سیدھے منہ بات نہیں کر رہے تھے نے ایک گھنٹے میں ٹرانسفارمر تبدیل کروانے کی یقین دہانی کروائی۔

اللہ بھلا کرے میرے دوست نے کال ریکارڈنگ بھیجی تو مجھے حوصلہ ہوا، اسی اثناء میں حاکم علاقہ لغاری صاحبان نے بھی فی دکان ایک ایک ہزار بسلسلہ مرمتی وصول کیا اور تقریباً پچیس سے تیس ہزار روپے اکٹھے کیے وہ پیسے اکٹھے کر کے سانس ہی لے رہے تھے کہ ادھر سے ڈھوکی صاحب بمعہ ٹرانسفارمر موقع پر پہنچ گئے۔ اب محکوم علاقہ کے لئے تو معجزہ تھا کہ ان کے حاکمان پیر صاحبان کی کرامات کے کیا کہنے۔ قصہ مختصر ٹرانسفارمر لگا، ڈھوکی صاحب لائن سپرینٹنڈنٹ ہوتے ہوئے اٹھارہ سو سی سی گاڑی میں موجود رہے (اب اللہ جانے کیسے ایک چودھویں سکیل کے ملازم پاس اتنی لگژری گاڑی آ ٓگئی) دوست بتاتے ہیں کہ لغاری صاحبان نے پچیس ہزار مبینہ طور پر پر ڈھوکی صاحب کے حوالے کیا۔

اس دوران ڈھوکی صاحب نے دریافت کیا کہ وہ کون گستاخ تھے جنہوں نے اوپر کال کی تو مائیک کی طاقت سے تنگ حاکمین نے میرے بڑے بھائی ضرار مصطفی پر ملبہ ڈال دیا کہ وہ رپورٹ کر رہے تھے۔ اب یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا کہ انتقاما یا تو بل زیادہ بھجوایا جائے گا یا پھر کوئی عذر نکال کر میٹر کاٹنے کی کوشش کی جانی ہے۔ جناب میپکو چیف صاحب یہاں حق مانگنے پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اگر اس بار ایسا ہوا تو اسی کالم کے ذریعے سند رہے کہ ذمہ دار غلام مصطفی ڈھوکی اور آپ کا عملہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments