کمر بند، صرف بالغ پڑھیں


کوئی تبلیغ، اللہ کا پیغام، بغیر دعوت طعام کے ہوا ہے کبھی نہیں۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اچھے کاموں کی طرف راغب کرنے یا بھلائی کی طرف بلانے کے لیے لذت کام و دہن کو لذیذ کھانا اور تبرک بہت ضروری ہے۔ کھانا اور تبرک کی خوشی میں لوگ چند ایسی باتیں بھی سن لیتے ہیں، جس سے ان کی اور ان کے ذریعے دوسروں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔

اسی طرح پرنٹ، الیکٹرانک اور سماجی میڈیا میں بھی کسی آرٹیکل کا عنوان کچھ ایسا رکھنا پڑتا ہے کہ لفافہ دیکھتے ہی خط کا مضمون بھانپنے کے مصداق لوگ اسے کلک کریں، اور لکھاری کی پوری تحریر پڑھ کر حسب توفیق رہنمائی حاصل کریں۔

انگریزی فلموں کے لیے سینما گھروں میں جو انگریزی فلمیں لگا کرتی تھیں ان کے لیے اخبارات میں اشتہارات چھپا کرتے تھے۔ ہر اشتہار کے نیچے اردو میں لکھا ہوتا۔ ”صرف بالغان کے لیے“ تجسس کے مارے بچے بوڑھے جوان سبھی فلم دیکھنے جایا کرتے، اور وہ بات فلم کے اختتام تک نہ ہوتی جس کے لیے وہ پیسے خرچہ کرتے تھے۔ واپسی پر رستہ سنسر بورڈ کو گالیاں دیتے گزرتا۔

تحریر و تقریر کی طاقت تو آپ سب کو معلوم ہی ہے۔ یہ جو ”ہم سب“ کے لکھاریوں پر کچھ مہربان غصہ ہوتے ہیں، ان کے لیے گندے الفاظ ادا کرتے ہیں، اصل میں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ بات ٹھیک کہہ گئی ہے، سچائی جانتے ہیں اور لکھاری کی تحریر کا نیک مقصد بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن سوچوں میں بدلاؤ کے لیے آنا، سماجی رویے اور کچھ وعدوں کے پریشر انہیں مغلظات پر مجبور کرتے ہیں۔ ورنہ لکھاری بھی ایک خاندان رکھتے ہیں خاندان کی عزت آبرو کا انہیں بھی پاس ہوتا ہے۔ وہ ایسا کچھ نہیں لکھیں گے جو ان ہی کے منہ پر طمانچہ بن کر پڑے۔

ایک لکھاری اپنا مخصوص انداز اور قارئین رکھتا ہے، جن میں کمی اور اضافہ جاری رہتا ہے۔ اکثر غیر سنجیدہ اور اتفاقی قارئین بھی ہوتے ہیں۔ جو کسی خاص موضوع کو دیکھ کر کلک کرتے ہیں۔

ہم سب کے قابل احترام ناقدین جن کا خیال ہے کہ ”ہم سب“ سیکس ہی چھاپتا ہے، وہ من چلے جو یہاں تک اس لیے پڑھ گئے کہ بالغوں کے لیے ایسا کیا لکھا ہے اس تحریر میں، تو جناب اب آگے کی تحریر ان بالغوں کے لیے ہے جو شلوار میں کمر بند ڈالتے ہیں۔ بچوں کی شلوار میں الاسٹک ہوتا ہے اس لیے ہم نے بالغوں کی توجہ چاہی۔

ویسے سوشل میڈیا پر پچھلے دنوں ایک ٹرینڈ نظر سے گزرا تھا جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ایم ٹی جے برانڈ کا ایک کمر بند بھی متعارف کرایا گیا ہے جس کی قیمت پانچ سو روپے ہے۔ پنجابی میں شلوار کے اس چوکیدار کو ناڑا کہا جاتا ہے۔ لفظ ناڑا سنتے ہی ذرا بھاری بھرکم قسم کے کمر بند کا تصور آتا ہے۔

شادی بیاہ کے مواقع پر کمر بند کے شلوار میں سے غائب ہو جانے پر انتقامی طور پر چپکے سے کسی اور کی شلوار میں سے کمر بند نکال کر اپنی شلوار میں ڈال لیا جاتا ہے۔ یوں کوسنوں اور گالیوں کا ایک بازار گرم رہتا ہے۔ ارے ابھی کمر بند ڈال کر شلوار یہاں کرسی پر رکھی تھی، یہ کون منحوس لے گیا۔

اب لے جانے والی کو بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماموں کی شلوار کا کمر بند اس نے ان کی باتھ روم میں ٹنگی شلوار سے نکالا تھا، جو بعد تائی جان نے اس کی شلوار سے نکال لیا۔ گھر کے بڑے تو ایک ایک کی قمیض اٹھوا کر کمر بند پہچاننے کی کوشش کیا کرتے۔ لیکن جو جتنا بڑا چور ہوتا وہ اتنے ہی زور سے ناک اور چہرہ پھلا کر ایسا چلاتا کہ الزام لگانے والا ہڑ بڑا جاتا، ویسے بھی اس نے بھی تو کسی کا چوری کیا ہوا ہی ہوتا تھا، اس لیے ”میرا کمر بند“ کا دعویٰ لرزنے لگتا۔ سر جھکا کر خاموش ہو جاتا، اتنے وقت میں کوئی کسی دوسرے کی شلوار ڈھونڈ کر اس میں سے کمر بند نکالنے میں کامیاب ہو ہی جاتا۔

کمر بند کا کیا ہے، پرانے دوپٹے کے دونوں طرف کے باڈر پھاڑ کر بھی شلوار میں ڈال کر کمر کسی جا سکتی ہے۔ کبھی کبھی جوتے کے دو تسموں کو آپس میں باندھ کر بھی شلوار میں ڈالا جا سکتا ہے

گو جس کی شلوار ہو اسے ہی یہ کام کرنا چاہیے لیکن ہمیشہ باتھ روم سے دو مردانہ نعرے ضرور بلند ہوتے ہیں۔ ”تولیہ دینا“ یا پھر ایک ہاتھ باتھ روم کے اندر سے شلوار کے ساتھ برآمد ہوتا ہے۔ ”یہ شلوار میں کمر بند ڈال دینا“ ، اور یہ کہتے ہوئے موصوف تولیہ میں لپٹے باہر آ جاتے ہیں۔

اب خاتون خانہ ان کی شلوار پکڑے، سیدھی باتھ روم میں گھستی ہیں اور ان کی اتاری ہوئی شلوار میں سے کھینچ کر کمر بند نکالتی ہیں۔ اور کمر بند کی لکڑی کی ڈھنڈیا میں حسب معمول ناکامی کے بعد بچے کے بیگ سے پینسل نکال کر اس کی نوک میں کمر بند کو دونوں طرف سے موڑ کر شلوار میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر شلوار میں کلف لگا ہو تب تو اسے ڈالتے بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔ شوہر باپ دادا کی روایت نبھاتے جھاڑ پلانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور خاتون بھی ترکی بہ ترکی کرتے کمر بند ڈال کر انہیں شلوار تھما دیتی ہیں

دیہات میں ریشمی خوب صورت کمر بند پہننے کا رواج اب بھی ہے۔ یہ کمر بند خاصے لمبے ہوتے ہیں، اور شلوار میں گرہ لگانے کے بعد اڑسنے کے بجائے یوں ہی دکھاوے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

‌اب شہری خواتین و حضرات میں شلوار پہننے کا رواج خاصا کم ہو گیا ہے، ٹراؤزر، جینز، پاجامے، فلیپر وغیرہ زیادہ تر ریڈی میڈ ہوتے ہیں۔ شہروں میں شلوار قمیض کا استعمال شادی بیاہ، عید بقر عید یا جمعہ کے روز ہوتا ہے۔ لڑکے ان خاص دنوں میں بھی شلوار پہننے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ تا دم تحریر پڑھنے والے بالغ حضرات کو مشورہ ہے کہ آپ بھی ازار بند کے آزار سے نکلیں۔ اپنی زندگی میں آسانی لائیں، کمر آپ کی شلوار بھی آپ کی، کبھی کبھی اس میں لگی گرہ زیادہ سخت ہو جاتی ہے۔ مشکل سے کھلتی ہے۔ اپنی شلوار میں الاسٹک لگوائیں، اپنی اور خواتین کی زندگی آسان کریں۔ ”ہم سب“ آپ سے بس اتنا ہی تو چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments