قربانی کے لیے ضابطہ اخلاق نافذ کیے جائیں


ہر بڑی عید کے موقع پر سوشل میڈیا میں قربانی کے جانوروں کی متعدد وڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن میں کہیں تو قربان کے جانوروں کی خوبصورتی اور انفرادیت کا چرچا ہوتا ہے تو کہیں انھی جانوروں کے ہاتھوں اناڑی قصائیوں کی درگت بنتی دیکھی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ کچھ وڈیوز ایسی بھی نظروں سے گزرتی ہیں جنہیں دیکھ کر نہایت دکھ اور افسردگی محسوس ہوتی ہے خاص طور پر جب کوئی بڑا جانور بے قابو ہو کر دوسرے لوگوں کی جان اور مالوں کے نقصانات کا سبب بن جاتا ہے۔

اس میں قصور قربانی کے لیے لائے گئے بے زبان جانور کا نہیں بلکہ ان کے مالکان کا ہوتا ہے جن کی لاپرواہی اور شوبازی ان حادثات کا سبب بنتی ہے۔ بعض دفعہ تو خود جانور ہی تماشا بن جاتا ہے کہیں کسی کو بلند چھت سے بذریعہ کرین اتارا جا رہا ہوتا ہے تو کہیں کسی بے قابو جانور پر فائر کیے جا رہے ہوتے ہیں اور کہیں بدکے ہوئے جانور کے ہاتھوں کسی کی دکان کے شیشے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔

اس قسم کے انگنت واقعات میں بے زبان جانور پر ظلم تو ہوتا ہی ہے مگر ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جاتیں ہیں۔ بے قابو گائے بیل جب بدک جاتے ہیں تو انہیں پھر سے قابو کرنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ جب تک یہ قابو میں نہیں آ جاتے کتنے لوگ ان کی زد میں آ کر اپنی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، دکانوں، ٹھیلوں یہاں تک کہ جانوں کا نقصان بھی اٹھا جاتے ہیں۔ بہت سے گنجان آباد شہروں میں لڑکوں کی ٹولیاں قربانی کے لیے لائے گئے بڑے جانوروں کو سیر اور دوسروں کو ان کی نمائش کروانے گھمانے کے لیے نکلتی ہیں۔ اسی دوران عید کی تیاری اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے خواتین بچے اور بزرگ شہری باہر سڑکوں اور بازاروں میں موجود ہوتے ہیں جن کو آمدورفت میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ یہی صورتحال تنگ گلی محلوں میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں سے لوگوں کا گزرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔

ان ساری باتوں پر توجہ دلوانے کا مقصد یہ قطع نہیں کہ قربانی ہی نہ کی جائے نہ یہ کہ اللہ کی راہ میں اپنی حیثیت کے مطابق اچھا سے اچھا جانور ذبح نہ کیا جائے اور نہ ہی اپنے بچوں کے ہاتھوں میں مہنگے موبائل دے کر دوسروں کی قربانی پر تنقید کر کے غریبوں کی مدد کا بھاشن دیا جائے۔ بلکہ قربانی جیسے فریضے کو بڑھ چڑھ کر خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشرتی طور پر کچھ اخلاقی ضوابط بھی طے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ابھی دوسرے اسلامی ممالک کی طرح اتنے ترقی یافتہ نہیں ہیں کہ قربانی کے دن ہمارے جانور کا گوشت ہمارے گھروں تک پہنچ جائے کیونکہ جہاں ایسے نظام مرتب ہیں وہاں عوام کو پہلے دیگر بنیادی سہولیات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

ہاں حکومت کو قربانی کے حوالے سے کچھ قوانین ضرور طے کروانے چاہیے۔ مثلاً لوگوں کو باور کروایا جائے کہ رہائشی اور گنجان آباد علاقوں میں بغیر موثر اقدامات کے اتنے بڑے جانور لائے ہی نہ جائیں جنہیں سنبھالنا ہی مشکل ہو جائے۔ اسی طرح قربانی کے لیے لائے گئے گائے بیلوں یہاں تک کہ اونٹوں کو سڑکوں پر نوعمر منچلوں کے ہاتھوں گھمانے یا چکر دلوانے جیسی چیزوں سے بھی گریز کیا جانا چاہیے کہ یہ چیز باقی عوام کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔

اسی طرح قربانی کے بعد جگہ جگہ یا اپنے ہی گھروں کے باہر آلائشوں کو کھلا پھینک دینے جیسی چیزوں پر بھی سخت پابندی عائد کی جانی چاہیے جہاں کتے بلیاں آلائشوں سے چیر پھاڑ کر کے مزید غلاظت پھیلانے کا باعث بن جاتے ہیں اور تعفن پھیلتا ہے۔ جب لوگ ہزاروں لاکھوں روپے کا جانور خرید سکتے ہیں تو چند سو روپے خرچ کر کے صفائی کا انتظام بھی کروا سکتے ہیں یا کم سے کم بوریاں یا کپڑے کے مضبوط تھیلوں کا بندوبست کر کے قربانی کے بعد آلائشوں کو قصائیوں کی مدد سے ہی ان میں ڈلوا کر کسی مناسب مقام پر رکھ دیا جائے اور لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کو بھی تینوں دن مکمل طور پر آلائشیں اٹھانے کی ڈیوٹی پر سختی سے پابند کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments