بلوچستان کی ’ناراض بلوچ قیادت‘ کو حکومتی مذاکرات کی دعوت پر کیا تحفظات ہیں؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، حیدرآباد


بلوچستان

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ یونائیٹڈ آرمی کی جانب سے گزشتہ تین روز میں تین گوریلا حملوں کا دعویٰ کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے مذاکرات کے اعلان کے باوجود حملوں کا سلسلہ رک نہیں سکا۔

بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے رواں ماہ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کابینہ نے ’ناراض بلوچ‘ قیادت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ بلوچستان میں ناراض عناصر سے بات چیت پر کام جاری ہے تاہم ان عناصر سے بات چیت ہو گی جو انڈیا سے رابطے میں نہیں ہیں۔

اس فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے عوامی جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی کے لیے اپنا معاون مقرر کیا ہے۔

مسلح تنظیمیں مذاکرات کے لیے رضامند نہیں

بلوچستان کی ’ناراض قیادت‘ دو حصوں میں تقسیم ہے جن میں سے ایک لندن، سوئزرلینڈ اور دیگر ممالک میں جلاوطن ہے تو دوسری قیادت پہاڑوں میں مسلح جدوجہد میں مصروف ہے، جن میں سے سرگرم مسلح تنظیمیں مذاکرات کے لیے رضامند نظر نہیں آتیں۔

پاکستان میں کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ یعنی بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی باتیں ڈھکوسلہ ہیں ان میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ یہ لوگ قابل بھروسہ نہیں ماضی میں انھوں نے پہلے مذاکرات کیے اس کے بعد تختہ دار پر چڑھایا۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

اللہ نذر بلوچ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کے سب سے متحرک دھڑے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں

بی بی سی اردو کی جانب سے بھیجے گئے تحریری سوالات کے نامعلوم مقام سے دیئے گئے جوابات میں ڈاکٹر اللہ نذر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ (حکمران) قابل بھروسہ نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ ون ٹو ون مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ جائیں یہ صرف دنیا کو دکھانے کے لیے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔

’بلفرض مذاکرات ہو جائیں اور یہ سنجیدہ ہوں تو ہماری سب سے پہلے شرط یہ ہو گی کہ فوج کو بلوچستان سے نکالیں اور بلوچستان میں جو نسل کشی اور جنگی جرائم ہو رہے ہیں ان کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی ادارے لائے جائیں وہ یہاں بیٹھیں تب ہم طے کریں گے کہ ہمارا ایجنڈآ کیا ہو گا۔‘

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب کا کہنا ہے کہ ’وہ مذاکرات کے دعوؤں کو کسی پیشرفت کی صورت میں نہیں دیکھتے بلکہ یہ کسی بڑے نوعیت کے قتلِ عام کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ بلوچستان میں جب بھی کسی بڑے نوعیت کے آپریشن کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس سے پہلے کسی کٹھ پتلی سیاست دان کو مذاکرات کا دعوت نامہ یا عام معافی کی باتوں کی پٹیاں پڑھا کر بھیجا جاتا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ قتل و غارت مجبور ہو کر کی گئی۔‘

بشیر زیب کراچی اور بلوچستان میں حملوں اور دھماکوں کے متعدد واقعات میں پولیس کو مطلوب ہیں اور ان کا نام سندھ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کی گئی ریڈ بک میں بھی شامل ہے۔

بی بی سی کی جانب سے تحریری طور پر بھیجے گئے سوالات کے جوابات میں ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات برابر کی طاقتوں کے مابین ہوتے ہیں اب تک پاکستان ہمیں برابر کے طاقت کے طور پر نہیں دیکھتا، اس لیے جب ان کے زبان سے لفظ مذاکرات نکلتا ہے تو ان کے ذہن میں قیمت پوچھ کر نوجوانوں سے ہتھیار پھینکوانے کا خیال ہوتا ہے، وہ بیوپاری کی طرح قیمت پر بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارے لیے یہ بقا و فنا کا مسئلہ ہے، ایسی صورت میں مذاکرات کیسے؟

’جب بھی ہمیں اور ہماری قوت کو برابری کے بنیاد پر تسلیم کیا گیا تو ہم انسانی جانوں کو بچانے کے لیے فوج کو بلوچستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دینے کے لیے کسی بین الاقوامی ضامن کی موجودگی میں مذاکرات کر سکتے ہیں۔‘

جلا وطن قیادت سے رابطے

براہمداغ بگٹی

براہمداغ بگٹی اس وقت سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں

حکومت کے قریبی حلقے اور بیرون ملک سرگرم بلوچ کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ براہمداغ بگٹی سے رابطے ہوئے ہیں تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

بی بی سی کی جانب سے براہمداغ بگٹی اور ان کی جماعت بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ترجمان سے مسلسل رابطے کی کوشش کے باوجود ان کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

سابق قلات ریاست کے والی سلیمان داؤد کا کہنا ہے کہ ہمارے اور حکومت پاکستان کے مابین تحریری معاہدہ موجود ہے جو ان کے دادا میر احمد یار خان نے اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے درمیان انگریز حکومت کے آخری وائسرا لارڈ ماونٹ بیٹن کی موجودگی میں طے ہوا تھا۔

’اس معاہدے کی بنیاد پر بانی پاکستان نے ایک پریس جاری کیا تھا جو اس وقت کے نیویارک ٹائمز سمیت اس وقت کے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پنجاب یا پاکستان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ وہ ہماری زمین پر بیٹھے ہیں، رہی بات مذاکرات اور بات چیت کی تو سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اصل حکومت کس کی ہے یہ سب جانتے ہیں۔‘

نواز شریف دور کے مذاکرات

میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جب ڈااکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ تھے تو ان دنوں بھی مذاکرات کیے گئے تھے۔

ڈاکٹر مالک کے مطابق پہلے مرحلے میں براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات سے مذاکرات ہوئے جن میں سے براہمداغ بگٹی نے جو مطالبات رکھے وہ عام سے تھے جو صوبائی حکومت بھی حل کر سکتی تھی لیکن مزید پیشرفت نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

‘براہمداغ آئین کو ماننے پر راضی تھے’

کیا شاہ زین بگٹی کے پاس مذاکرات اور فیصلہ سازی کے اختیارات ہوں گے؟

افغانستان میں پناہ گزین بلوچ مہاجرین کا کیا بنے گا؟

جب نواب نوروز خان نے پھانسی چڑھنے والے اپنے بیٹے کی مونچھوں کو تاؤ دیا

براہمداخ بگٹی بلوچستان میں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد جرگے کے فیصلے کے تحت بیرون ملک چلے گئے تھے جہاں انھیں بین الاقوامی اداروں اور ملکوں سے رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

خان آف قلات سلیمان داؤد کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی کسی حکومت سے بذات خان آف قلات کوئی رابطہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کی مختلف حکومتوں کی طرف سے گزشتہ 14 برسوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

’میرا جواب ہمیشہ یہ ہی ہوتا ہے کہ پہلے میرے معصوم بلوچوں کا قتل عام بند کرو، ان کو اپنی غیر قانونی جیلوں سے رہا کرو پھر کسی غیر جانبدار ملک کی موجودگی میں ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘

بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر مالک اور ان کے ایک مشترکہ دوست نے پیغام بھیجا تھا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن براہ راست بات نہیں کی گئی تھی اور وہ بھی مذاکرات کے لیے تیار نہ تھے کیونکہ انھوں نے اپنا سب کچھ اس جنگ میں جھونک دیا اور اپنی کشتیاں جلا دی ہیں۔

بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے کی جدوجہد کے دوران نہ انھوں نے کبھی پاکستان سے مذاکرات کی بات کی اور نا ان سے کبھی کوئی رابطہ ہوا۔

موجودہ وقت میں مذاکرات کی ضرورت پیش کیوں آئی؟

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک آزادی پسندوں سے مذاکرات کی کوششیں جاری رہی ہیں۔

سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے جب سوال کیا گیا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کو مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی تو اس پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’کبھی اختر مینگل تو کبھی زبیدہ جلال جیسے لوگ کہتے ہیں کہ مذاکرات کریں ان جیسے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ مسئلے کا حل یہ ہی ہے حالانکہ وہ اصل صورتحال سے لاعلم ہیں وہ مسلح لوگ تو اپنی شناخت اور آزادی کی لڑائی لڑ رہیں وہ تو یہ نہیں کہتے کہ ہمیں سڑک چاہیے یا ہسپتال چاہیے۔‘

نواب اکبر بگٹی

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے شاہ زین بگٹی کے دادا نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے تھے جو ناکام ہوئے اور ایک فوجی آپریشن میں ان کی ہلاکت ہوئی

کیا مسلح گروپ جلا وطن قیادت کے زیر اثر ہیں؟

حکومت کی جانب سے جلا وطن قیادت سے مذاکرات کی کوششوں سے کیا آزادی پسند سرمچار اپنی کارروایاں بند کر دیں گے، اس بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلح قیادت جلاوطن قیادت کے زیر اثر نہیں۔

بلوچستان میں حکمران بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا ماننا ہے کہ یہ مذاکرات بھی ماضی کی طرح بے سود ثابت ہوں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ براہمداغ بگٹی ہو یا خان آف قلات دونوں کا مسلح جدوجہد کاروں پر کوئی اثر رسوخ نہیں۔

’خان آف قلات تو ایک یونین کونسل نہیں جیت سکتا جبکہ براہمداغ بگٹی کا اثر بھی صرف ایک تحصیل تک محدود ہے جبکہ پورے جنوبی مکران میں اللہ نذر (بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ) مضبوط ہے۔ براہمداغ کو کون پوچھتا ہے، چار ہوں یا چار ہزار ہوں جو بھی ہوں وہ لوگ اللہ نذر کے ساتھ ہیں۔‘

واشنگٹن میں موجود صحافی اور تجزیہ نگار ملک سراج اکبر کہتے ہیں کہ جو بلوچ رہنما ملک سے باہر بیٹھے ہیں ان کا صوبے میں جاری مسلح جدوجہد پر بہت کم اثرو رسوخ ہے، ان میں محض ایک بات مشترکہ ہے کہ وہ سب بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن مسلح تنظیموں کی صف میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ بیرون ملک ان رہنماؤں کو تحریک کے لیے جتنا کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکے ہیں اور اصل قربانی وہی لوگ دے رہے ہیں جو سر زمین پر جنگ لڑ رہے ہیں۔

صحافی ملک سراج اکبر کے مطابق براہمداغ بگٹی نے ماضی میں کئی مرتبہ یکطرفہ طور پر حکومت سے مذاکرات کا عندیہ دے کر بہت سارے آزادی پسندوں کو ناراض اور حیران کر دیا تاہم اب بلوچ شورش کا مرکز مکران کا غیر قبائلی علاقہ ہے جہاں پر خان آف قلات، براہمداغ بگٹی یا مری برادران (حربیار اور مہران عرف زامران مری) کا کوئی اثر رسوخ نہیں ہے۔

بلوچستان کی ایک قوم پرست جماعت کے رہنما کا کہنا ہے کہ مسلح جدوجہد کی قیادت اب کسی سردار یا نواب کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو اب یہ لڑائی نظریے کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں، اب ان کے پاس وسائل کا مسئلہ نہیں رہا۔

افغانستان سے انخلا اور بلوچ تحریک

حکومت پاکستان کی جانب سے مذاکرات کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں، اس سے قبل ماضی میں روس کے انخلا کے بعد افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سے پہلے جنرل شیروف مری اور اس کے بعد نواب خیربخش مری افغانستان سے پاکستان واپس آ گئے تھے۔

بی ایل ایف کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد بلوچ تحریک پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جس طرح لوگ سوچ رہے ہیں۔

’ہماری اپنی زمین ہے ہماری اپنی قوم ہے ہم اس میں اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے طالبان اپنے علاقوں میں جائیں گے انھیں بھی سمجھنا چاہیے کہ بلوچ ایک قوم ہے وہ افغانستان میں بھی موجود ہیں اور اپنے وطن میں بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘

’جس وقت نواب مری اور جنرل شیروف مری موجود تھے اس وقت بھی مجاہدین نے بلوچوں کا بڑا خیال رکھا تھا۔ اس وقت ہمارے پناہ گزین کی کافی تعداد افغانستان یا ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ طالبان یہ رسک نہیں لے سکتے۔‘

بلوچ عسکریت پسند

بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب کا کہنا ہے کہ آج کے حالات 1990 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں کیونکہ آج بلوچ تحریک کسی ہمسایہ ملک پر انحصار نہیں کرتی۔ یقیناً جنگ سے متاثرہ بلوچ مہاجرین افغانستان و ایران کے ان بلوچ علاقوں میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں جنھیں وہ اپنا وطن تصور کرتے ہیں لیکن بلوچ مزاحمت کار و مزاحمتی قیادت رواں تحریک کو بلوچستان سے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

’افغانستان میں چاہے جس کی بھی حکومت ہو، رواں تحریک تسلسل توڑے بغیر جاری رہے گی، بلوچ تحریک و طالبان کے مابین موضوعی و نظریاتی اختلافات لازم موجود ہیں لیکن کبھی بھی ان کی نوعیت معروضی نہیں رہی۔ ہاں البتہ بلوچ سرزمین پر آ کر بلوچ قومی مفادات کے خلاف اگر دنیا کی کوئی بھی قوت متحرک ہوتی ہے تو بلوچ بخوبی مزاحمت کرنا جانتے ہیں۔‘

خان آف قلات سلیمان داؤد کا کہنا ہے کہ ماضی میں مجاہدین کے افغانستان پر قبضہ ہونے کے بعد نواب مری کو باعزت طور پر واپس لایا گیا اگر وہ دشمن ہوتے یا مزاحمت کار ہوتے تو پاکستانی طیارے میں ان کو باعزت واپس نہیں لایا جاتا اس لیے انھیں واپس لایا گیا کیونکہ وہ پرامن سیاسی لوگ تھے۔

’طالبان نے امریکہ سے مزاحمت کی اور امریکہ نے طالبان سے۔ امریکہ اور طالبان میں بات چیت کا بلوچوں پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہمارا مسئلہ نہ امریکہ سے تھا نہ افغان طالبان سے۔‘

مذاکرات اور اعتماد سازی

صحافی ملک سراج اکبر کا کہنا ہے کہ مزاحمت کار تو آزادی سے کم پر بات کرنے کو تیار نہیں لیکن اگر جلاوطن قیادت سے مذاکرات کے نتیجے میں چند دیرینہ مطالبات تسلیم ہوتے ہیں تو یہ بھی عوامی سطح پر مقبول اقدامات ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ جلاوطن رہنماؤں کے وہ مطالبات جنھیں پاکستان کے آئین کے دائرے میں رہ کر تسلیم کیا جا سکتا ہے اس میں لاپتہ افراد کی بازیابی، چیک پوسٹس اور سکیورٹی افراد کی بلوچستان میں کمی اور میگا پروجیکٹس کو صوبہ کے حوالے کرنا شامل ہیں۔

’اگر یہ مطالبات تسلیم ہوں تو فوجی کارروائی اور موجودگی میں کمی آئے گی، ان کی سیاسی و سماجی سطح پر پزیرائی ہو گی اور جلاوطن رہنماؤں کا ساکھ بھی بحال ہو گی کہ انھوں نے بلوچ مفادات پر سودے بازی کرنے کے بجائے دیرینہ مطالبات کو منوایا جو ڈاکٹر مالک اور سردار اختر مینگل جیسے قوم پرست نہیں حاصل کر سکے ہیں۔‘

سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ براہمداغ بگٹی کے لیے واپسی پر بھی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔

’براہمداغ بگٹی حکومت سے مذاکرات کر کے واپس بھی آ جائیں لیکن قبائل کا سامنے کیسے کریں گے کیونکہ اس لڑائی میں 800 سے 900 بگٹی مارے گئے ہیں وہ تو اسے نہیں چھوڑیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’1992 میں تو فوج نہیں تھی، نواب اکبر بگٹی کی وضاحتوں کے باوجود بھی صلال بگٹی کو مارا گیا تھا اس صورتحال میں براہمداغ خود کو کیسے بچائیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp