کیا خواجہ سرا گناہ والی زندگی پسند کرتے ہیں؟
نادرہ خان خواجہ سرا کمیونٹی کی سب سے زیادہ نڈر اور بے باک لیڈر ہیں۔ ہزارہ ٹرانس جینڈرز ایسوسی ایشن کی بانی و صدر ہیں۔ تھیٹر اور فلموں میں کام کرچکی ہیں۔ نادرہ کی نئی فلم ”مشن“ آنے والے چند دنوں میں ریلیز ہونے والی ہے۔ نادرہ شادی بیاہ کے فنکشنز میں پرفارم کر کے اپنا گزر بسر کرتی ہیں۔ لیکن لیڈر بننے اور کرونا وبا کے بعد نادرہ کے ذرائع آمدن میں خاصی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
چند روز قبل نادرہ نے مجھے اپنے کام، جدوجہد اور پرفارمنس کے حوالے سے چند آڈیو اور ویڈیو پیغامات شیئر کیے جن میں سے ایک آڈیو کال کی باتیں پڑھنے والوں سے شیئر کرنے جا رہا ہوں۔
یہ میسج ڈاکٹر فیضان صاحب کا ہے جو شملہ میڈیکل اور ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ کئی سالوں سے ماہ رمضان میں خواجہ سراؤں کے روزے افطار کرواتے ہیں۔ انھیں تحفے تحائف دیتے ہیں اور خواجہ سراؤں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل نوجوان ڈاکٹرز کی ایک ٹیم ایبٹ آباد کے مشہور سیلون کے میک اپ آرٹسٹ اظہر سلیم سے ملی۔ ڈاکٹرز کی اس ٹیم نے اظہر سلیم سے درخواست کی کہ وہ کچھ خواجہ سراؤں کو میک کا کورس اپ کروائیں۔ کورس کی تکمیل کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی ٹیم اپنے خرچے پر خواجہ سراؤں کو بیوٹی پارلر کھول کر دے گی۔ اظہر صاحب نے ڈاکٹرز کی درخواست کو کارخیر سمجھ کر قبول کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ جو خواجہ سرا کام میں دلچسپی لے گا اسے ملک بھر میں پھیلی کسی بھی برانچ میں شفٹ کر دیا جائے گا۔
ڈاکٹرز کی ٹیم پراجیکٹ کی ابتدا کے لئے دو ہفتے تک اظہر صاحب سے ملتی رہی جس کے لیے ہسپتال سے جلدی چھٹی لینا پڑتی۔ ڈاکٹرز نے پراجیکٹ کو یہاں تک پلان کر لیا کہ مانسہرہ سے ایبٹ آباد آنے والے خواجہ سراؤں کو یا تو اپنی گاڑی میں لایا جائے گا یا پھر ویگن کا کرایہ بھی فراہم کیا جائے گا۔
نادرہ نے مانسہرہ سے پانچ خواجہ سراؤں کو کورس کے لئے تیار کیا۔ کورس شروع ہوا تو پہلے دن پانچ میں سے ایک خواجہ سرا سیکھنے کی غرض سے آیا۔ جس کے بعد ڈاکٹرز اور میک اپ آرٹسٹس کی ٹیم انتظار ہی کرتی رہ گئی لیکن کوئی خواجہ سرا سیکھنے کے لئے نہ آیا۔ نادرہ اس دوران غصے بھرے پیغامات اپنے گروپس میں بھیجتی رہیں۔ لیکن کسی خواجہ سرا کو سیکھنے کے لیے قائل نہ کر سکیں۔
نادرہ اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں کے ساتھ مل کر خواجہ سراؤں کو ٹیکنیکل کورسز، سلائی کڑھائی، ماسٹر شیف اور بیوٹی پارلر کے کام کے لئے قائل کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہیں۔ لیکن ہر بار ناکام ہی رہیں۔
نشا رائے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل ہیں۔ نشا دن کے وقت کراچی کے چوکوں پر بھیک مانگا کرتی تھیں اور شام کو لا کالج کی کلاسز اٹینڈ کیا کرتی تھیں۔ خواجہ سراؤں کی نئی لیڈر شپ میں نشا پریکٹیکل ترین لیڈر ہیں کیونکہ انھوں نے کمیونٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کیا ہے۔ چند ماہ قبل نشا نے مجھے بتایا کہ ایک ڈونر کراچی میں خواجہ سراؤں کو بیوٹی پارلر کھول کے دینا چاہتا تھا جس کے لیے دو خواجہ سراؤں کی ضرورت تھی۔ نشا بڑی کوششوں کے باوجود پورے کراچی سے دو با اعتماد خواجہ سرا ڈھونڈنے میں ناکام رہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ سرا عزت داروں والی زندگی جینا نہیں چاہتے؟ کیا خواجہ سرا تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہیں؟ کیا خواجہ سرا گناہ پسند کرتے ہیں؟ یا پھر خواجہ سراؤں نے نفرت اور دھتکار کو زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے؟
ہمارے ملک میں تین قسم کے خواجہ سرا پائے جاتے ہیں پہلی قسم ان خواجہ سراؤں کی ہے جن کا تعلق پڑھے لکھے خاندانوں سے ہے۔ یہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ جو نوکری کر کے یا این۔ جی۔ اوز بنا کر اپنی کمیونٹی کی خدمت کر رہے ہیں۔
دوسری قسم ان خواجہ سراؤں کی ہے جنھیں ان کے خاندان والوں نے گھروں میں قید کر رکھا ہے۔ جو بغیر کسی جرم کے عمر قید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔
تیسری قسم ان باغیوں کی ہے جو گھر والوں، رشتہ داروں اور معاشرے کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر گھر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر نکال دیے جاتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید گھر سے بھاگ جانے کے بعد ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ گھر کی چار دیواری سے نکلنے کے بعد نئے مسائل ان کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ناچ گانا، بھیک اور سیکس ورک ذریعہ معاش بنانا پڑتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ انھیں اور کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ معاشرہ اور پولیس مل کر ان کی زندگی ایسی اجیرن بنا دیتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ خواجہ سرا خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
باغی خواجہ سراؤں کے ذہن میں چند سوالات گردش کر رہے ہوتے ہیں جن کے مناسب جوابات دے کر انھیں کام کے لئے راضی کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً خواجہ سرا بھیک مانگ کر ایک ہزار روپے سے زیادہ کی دیہاڑی لگا لیتے ہیں۔ اسی طرح نجی محفلوں میں پرفارم کر کے پانچ دس ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ سیکس ورکر علاقے اور گاہک کے حساب سے اچھا پیسہ بنا لیتے ہیں۔ جب انھیں ہنر سیکھنے کی آفر دی جاتی ہے تو ان کا پہلا خیال اپنے بھیک مانگنے والے چوکوں، محفلوں میں کام دلوانے والے مڈل مینوں اور سیکس ورک کے گاہکوں کی طرف جاتا ہے جو کم محنت کے عوض زیادہ پیسے دے دیتے ہیں۔
فرض کریں ہم خواجہ سراؤں کو بیوٹی پارلر کھول دیتے ہیں تو کیا ہمارا معاشرہ کسی خاتون کو خواجہ سرا سے میک اپ کرانے کی اجازت دے گا؟ کیا ہماری خواتین، خواجہ سرا درزی کو ناپ دینا پسند کریں گی وغیرہ وغیرہ
کسی بھی ہنر کو سیکھنے کے لئے کم از کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے ان چھ ماہ کے دوران خواجہ سرا اپنا پیٹ کیسے بھرے گا، ڈیرے کے گرو کو کیا دے گا۔ مکان کا کرایہ اور بجلی کے بل کیسے ادا کرے گا؟
صرف ہنر سیکھ لینے سے مسئلے حل نہیں ہوتے، کسی بھی کاروبار کے آغاز کے لئے ابتدائی طور پر اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے وہ رقم ہوگی تو کاروبار شروع ہو سکتا ہے۔
کاروبار نفع اور نقصان کا نام ہے۔ نقصان کی صورت میں کون مدد فراہم کرے گا؟
کاروبار کو منافع بخش بننے کے لئے مہینے اور بعض اوقات سال درکار ہوتے ہیں اس دوران ہونے والے اخراجات کا بوجھ کون اٹھائے گا؟
بعض اوقات آپ کی پوری محنت کے باوجود کاروبار ناکام ہو جاتے ہیں ایسی صورتحال میں خواجہ سرا کیا کرے گا؟
انسانی معاشرہ ایک جسم کی مانند ہے جس کا ہر فرد عضو کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسم کے کسی بھی حصے کی تکلیف کو پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت تک متوازن معاشرہ نہیں کہلائے گا جب تک اس میں رہنے والے ہر فرد کے دکھ اور تکلیف کا ازالہ نہیں کرے گا۔ انسان فطری طور پر نیکی پسند ہے۔ خواجہ سرا عام انسانوں سے زیادہ حساس طبعیت کے مالک ہوتے ہیں، برائی سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ کاروبار کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں چلنے والے سوالات کے جب تک جوابات نہیں دیے جائیں گے، اس وقت تک انھیں کاروبار کی جانب راغب نہیں کیا جا سکتا۔
- کیا خواجہ سرا شادی کر سکتے ہیں؟ - 06/08/2022
- ایڈوکیٹ نشا راؤ (خواجہ سرا) کی ہمارے گھر آمد - 01/08/2022
- خواجہ سراؤں کی نسل کشی کا منصوبہ - 23/07/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).