نظام تعلیم اور اس کے مسائل


ہمارے پاکستان کے تعلیمی نظام میں بہت سے مسائل ہیں، اول تو یہاں کوئی یکساں نصاب تعلیم نہیں ہے پھر ہمارے پاس اچھے سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی کمی ہے اور اگر ہے بھی تو وہ صرف امیروں کے بچوں کے لئے ہے کیونکہ غریب کے بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے سے بہت دور ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اچھے تعلیمی ادارے بڑے بڑے فیسیں وصول کرتے ہیں۔

پاکستان میں کالج کے بعد یونیورسٹیوں میں تو صرف 2 فیصد لوگ داخلہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا اعتماد نہیں ہوتا کہ آگے ہمیں نوکری ملے گی یا نہیں اس وجہ سے لوگ تعلیم سے اکتا رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان تعلیم کے میدان میں پوری دنیا میں پیچھے رہ گیا ہے اس پر بہت زیادہ توجہ ضروری ہے اور ٹھوس اقدامات اور اصلاحات کرنے چاہئیں۔

صرف 68 فیصد پاکستانی بچے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہے۔ معیاری نظام تعلیم بنیادی طور پر انگریزی تعلیمی نظام سے متاثر ہے۔ پرائمری سکول کی تعلیم 5 سال کی عمر ہونا چاہیے اور یہ عام طور پر تین مراحل پر مشتمل ہوتی ہے پلے گروپ، نرسری یا پریپ بھی کہا جاتا ہے۔

موجودہ تعلیمی نظام کے مسائل کا حل صرف یہی ہے کہ ایک بڑی سطح پر اصلاحات لائے جائیں کیونکہ اس کے بغیر ہماری تعلیمی درجہ بندی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

تمام یونیورسٹیوں کو وفاقی حکومت کے ماتحت کرنا چاہیے جبکہ سکول اور کالجز کو اپنے اپنے صوبوں کے حکومت کے ماتحت کر دینا چاہیے، سرکاری اسکولوں میں پرائیویٹ اسکول کی طرح نظام لانا چاہیے اور ہر مہینے کی کارکردگی کے بنا پر اسکول انتظامیہ کو سزا اور جزا دی جائے تو ہی اساتذہ اور طلباء کام کریں گے۔

اس کے علاوہ ہماری یونیورسٹیوں میں ہر روز ہڑتال ہوتے ہیں، کبھی طلباء کے اور کبھی اساتذہ کے، جس کی وجہ سے سرکاری امور ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوتا۔

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے اس کی بدولت ہی انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے، حال ہی میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ چلا جس سے تقریباً ہر شخص واقف ہوگا، ”یونیورسٹیز اور فحاشی کے اڈے“ ، جو انتہائی افسوسناک چیز ہے۔ یونیورسٹی ایک درسگاہ ہے جہاں پہ لوگ سیکھنے آتے ہیں تاکہ آنے والی زندگی میں اچھے اور برا میں فرق نظر آنے لگے، یونیورسٹی فحاشی کے اڈے نہیں ہوسکتے سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ کافی وقت ٹاپ پر رہا، حال ہی میں ایک یونیورسٹی میں اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا اور ان طلباء کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

ہمیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی حاصل کرنی چاہیے، تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوارتی ہے، ہمیں اس کے ساتھ اپنی ثقافت کو بھی پروموٹ کرنا چاہیے، آج کل زیادہ تر لوگ اپنی ثقافت بھول گئے ہیں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ثقافت کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔

تعلیم کے شعبے میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا کر اچھا تعلیمی نظام فراہم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments