ضمیر کبھی ماں کی جگہ نہیں لے سکتا


میں پوچھتا ”امی، دو بوٹیوں سے کیا ہوتا ہے؟“
بہت کچھ ہوتا ہے تمہیں نہیں پتہ، یہ کہہ کر وہ ان بوٹیوں کو واپس اپنی جگہ رکھ دیتی تھیں۔

ہمارے گھر میں ایک چھوٹی سی ترازو تھی۔ جس میں تول کر امی قربانی کے گوشت کے تین حصے الگ کرتیں، بڑی احتیاط کے ساتھ اس بات کا اہتمام کرتیں کہ کسی ایک حصے میں بھی ہڈیاں زیادہ نہ جائیں۔ ہم بچے تھے اور کوشش کرتے کہ ہمارے والا حصہ زیادہ ہو اور اچھا بھی، کہیں بار شرارت میں بھی ہم ہیر پھر کرنے کی کوشش کرتے۔ حالانکہ گوشت کا شوقین ہم میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔ کنٹرول کیونکہ امی کے پاس ہوتا تھا اس لیے ہماری کبھی چل نہ سکی۔ نہ ہی کبھی وہ آخر تک یہ بتاتی کہ ہم نے اپنے لیے کون سا والا حصہ رکھنا ہے تاکہ ہم کوئی گڑبڑ نہ کر سکیں۔ کہیں بار زچ ہو کر ہم کہتے کہ اچھا ہمارے حصے میں سے کچھ رشتے داروں والی ڈھیری میں ڈال دیں، وہ اس پر بھی نہ مانتی۔

مڈل کلاس گھروں میں زندگی بڑے سکون سے گزرتی ہے۔ گھر کا محور ماں ہوتی ہے جو روز مرہ معمولات کے اصول طے کرتی ہے اور کچھ اصول تو ایسے ہوتے ہیں کہ زچ کر کے رکھ دیں۔

ہماری امی سخت جاڑے کے دنوں میں پوچھتیں تھیں کہ جیکٹ کے نیچے سویٹر پہنی ہے؟ پھر جواب سنے بغیر جیکٹ کی زپ کھول کر چیک کرتیں۔ ہم بہن بھائی اس سے بہت تنگ پڑتے تھے کہ ایک تو دو دو جرسیاں پہنو اوپر سے تلاشی بھی دو لیکن انہوں نے کبھی یہ عادت نہ چھوڑی نہ ہمارے کہے پر اعتبار کیا۔

مڈل کلاس گھروں میں ذریعہ آمدن یا کمانے والا عموماً ایک ہی ہوتا ہے اس لیے معاشی اونچ نیچ بھی تبھی آتی ہے جب کمانے والا نہ رہے یا آمدنی کا واحد ذریعہ بھی ختم ہو جائے ورنہ زندگی ایک ہی ڈگر پر چلتی ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ بچپن میں بھی کبھی کوئی سال ایسا گزرا ہو کہ ہم نے قربانی نہ کی ہو۔ قربانی کا گوشت الگ کرنے، تولنے، پیک کرنے اور بانٹنے تک ہر مرحلے کا محور امی ہی ہوتی تھی۔

وقت گزرتا گیا۔ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو گئے۔ ذمہ داریوں نے کندھے بدلے اور اپنا سفر جاری رکھا۔ جب امی کو تیسرا فالج کا اٹیک ہوا تو بالکل ہی بیڈ کی ہو کر رہ گئی۔ سٹینڈ کے بغیر چل نہ سکتی تھیں۔ پھر بھی قربانی کے حصے کرنے کے وقت کسی نہ کسی طرح آ کر بیٹھ جاتیں، پر بولتی کچھ نہ۔

شادی کے بعد بیگم کی دوسری عید تھی، حسب معمول امی آہستہ آہستہ سٹینڈ کے سہارے چلتی ہوئی آئیں اور بیٹھ گئیں۔ بیوی نے کہا لگتا ہے پھپو کو شک ہے ہم حصے کرتے ہوئے کچھ گڑبڑ نہ کر دیں۔ میں کچھ نہ بولا۔

جب گوشت کے حصے کر کے ہم فارغ ہوئے تو میں نے بڑی سنجیدگی سے ایک ڈھیری کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ والا حصہ ہمارا ہے۔ یہ کہہ کر میں ایک مٹھی بھر کر دوسری ڈھیری میں سے کچھ بوٹیاں اپنے والے حصے میں ڈال دیں۔ امی نے برا سا منہ بنایا اور زور سے ”ہوں“ کہا بیچاری صحیح سے بول نہیں سکتی تھیں۔ میں نے بیگم سے کہا کہ اس لیے عین حصے کرنے کے وقت آتی ہیں اس معاملے میں یہ کسی کا اعتبار نہیں کرتیں۔ اس بات پر امی بہت ہنسی تھیں۔

آج ہمارے پاس ڈیجیٹل سکیل ہے جو گرام تک درست وزن بتاتا ہے۔ جب تولنے کا پیمانہ زیادہ مستند ہو تو ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ دوسری عید ہے ایک آدھ بوٹی ادھر ادھر ہونے پر صرف ضمیر سے ”ہوں“ کی آواز آتی ہے۔ بھلا ضمیر بھی کبھی ماں کی جگہ لے سکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments