جانور اور انسان ایک مکالمہ


جانور: اے انسان تجھے کس بات کا گھمنڈ ہے
انسان: میں اشرف المخلوقات ہوں

جانور: کیا فرق ہے تم میں اور مجھ میں، میں بھی پیدا ہوتا ہوں تم بھی پیدا ہوتے ہو۔ میں بھی کھاتا ہوں تم بھی کھاتے ہو میں بھی سوتا ہوں تم بھی سوتے ہو میں بھی مر جاؤں گا تم بھی مر جاؤ گے

انسان: جی یہ باتیں درست ہیں لیکن میں نے رشتے بنانا سیکھے ہیں۔ میں نے بستیاں آباد کی ہیں۔ مجھ میں عقل ہے اور تم نادان ہو

جانور: میں نادان ہی بہتر ہوں کم از کم میں اپنے حال میں خوش رہتا ہوں تمہاری طرح ہر وقت پریشان نہیں، جوان ہو تو مستقبل کے خواب اور بوڑھے ہو تو ماضی کی یادیں تم کو ستاتی ہیں۔ اتنی عقل کے باوجود تمہارے منہ پر بارہ بجے رہتے ہیں۔ کبھی کسی جانور کو پریشان دیکھا ہے؟

انسان: میں آزاد ہوں تم میرے قیدی ہو میں چاہوں تو تمہیں کھانے کو دوں چاہوں تو تم بھوکے مر جاؤ

جانور: آزادی کی تم نے خوب کہی، تم تو اپنی سوچ کے قیدی ہو تم جس عقل پر ناز کرتے ہو وہی تمہاری سب سے بڑی دشمن ہے۔ تم آزادی کی بات کرتے ہو۔ سب سے بڑے غلام تو تم ہو میرے تو پیر میں زنجیر بندھی ہے مگر تم الفاظ کے غلام ہو اور اپنی سوچ کے غلام ہو

انسان:تم کو بڑی باتیں کرنی آ گئی ہیں دیکھ لوں گا تم کو

جانور: بس غصہ آ گیا، عقل کے مالک کبھی سوچا بھی ہے غصہ کیوں آتا ہے پر تم کیوں سوچو گے تم کو تو انا کی تسکین کرنی ہے۔ تم سب کے دشمن ہو اور اپنے بھی

ا انسان: تم کیا جانو انسان ہونا کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے

جانور: ہنستے ہوئے مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ ہر بات کو بڑھا چڑھا کر کرتے ہو شادی کو دیکھ لو ایک جسمانی ضرورت کے لیے تم نے کتنا بڑا فساد برپا کیا ہوا ہے کتنی پابندیاں ہیں۔ یہ ضرورت تم سب کے سامنے پوری نہیں کر سکتے مگر نکاح کے لیے تم کو گواہ کی ضرورت ہے۔ تمہاری ہر بات میں مجھے تو تضاد نظر آتا ہے

انسان: بیوقوف اگر تضاد نہ ہو تو معنی کیسے بنیں گے

جانور: بیوقوف میں نہیں تم ہو مجھے تو صرف وہی نظر آتا ہے جو ہوتا ہے تم تو اپنے دماغ میں کہانیاں بناتے رہتے ہو

انسان: اگر مجھ میں تخیل کی قوت نہ ہوتی تو تم آج میرے پاس کھونٹے سے نہ بندھے ہوتے

جانور: میں تو شکر کرتا ہوں کہ میں تخیل نہیں کر سکتا ورنہ میں بھی تمہاری طرح نجانے کتنے دماغی امراض میں مبتلا ہوتا

انسان: ہم نے ہر بیماری کو قابو کر لیا ہے
جانور: سوائے خود کے
انسان:تم حد سے آگے بڑھ رہے ہو ابھی چھری نکال کر تمہیں ذبح کردوں گا

جانور: اپنا نقصان کرو گے تمہارے پاس پہلے بھی بہت سی اجناس ہیں فریزر گوشت سے بھرا ہوا ہے اور پھر تم نے عید پر مجھے فروخت کر کے عید کرنی ہے یاد نہیں تمہیں؟

انسان: یاد ہے یاد ہے عید تک موج مار پھر ہنسنے لگا
جانور: مجھے نہ ماضی کا غم ہے نہ مستقبل کی فکر جب تک زندہ رہوں گا موج میں رہونگا
انسان: کم عقل یہ کیسی بحث تونے آج چھیڑ لی ہے؟
جانور: میں تو تمہاری عقل پر پڑے پردے ہٹا رہا ہوں۔ میری بلا سے جو مرضی کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments