اپنے حال میں خوش رہیں


اس کی بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ ہاتھوں میں چھالے پڑ چکے تھے۔ جسمانی طاقت جواب دے چکی تھی۔ قدم محال سے اٹھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آئے، گرم جوشی سے مصافحہ کیا، لاٹھی پٹخ دی، دو گھنٹے تک بیٹھا رہا اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے تلخ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا بیٹا! میں اپنے والدین کا اکیلا وارث تھا۔ میرے پاس بے شمار اراضی اور ڈھور ڈنگر کا لاؤ لشکر تھا۔ باوجود اس کے میں دولت جمع کرنے کی خبط میں مبتلا تھا، اس لیے اپنے اہل و عیال کو تنگی میں رکھ کر ان سے سخت قسم کے کام لیتا تھا۔

گھر میں استعمال ہونے والی اشیائے خورد و نوش پر سانپ بن کر بیٹھا رہتا تھا۔ مسالہ، چائے کی پتی یہاں تک کہ نمک بھی تول تول کر دیتا تھا۔ جبکہ بقیہ اشیاء کو صندوقچوں میں بند کر کے اوپر سے کیل لگا دیتا تھا۔ میری اجازت کے بغیر کوئی ایک دانہ بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اگر کوئی مرضی کرتا تو قیامت کھڑی کر دینا اپنے ذمے فرض عین سمجھتا تھا۔

ہمیشہ پیسے بنانے کی دھن میں لگا رہتا تھا۔ دیسی مکھن میں چربی ملا کر منوں کے حساب سے بیچ دیتا تھا۔ کسی کے منع کرنے پر مختلف دلائل سے خاموش کرا دیتا۔ چوں کہ اپنی شاطرانہ چالوں سے ہیروئن کو بھی آٹا ثابت کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ پھر میں نے خود ساختہ بینک بنا رکھا تھا اور سود کے لیے پیسے بانٹ رہا تھا۔ کوئی مقررہ وقت پر قرض ادا نہ کرتا تو اس کی زمین اور مال مویشی پر قبضہ جماتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ میں زمانے کا قارون بن چکا تھا۔

دریں اثنا مجھے ایک نجی بینک کے ساتھ واسطہ پڑا۔ جس نے دیگر بینکوں سے دوگنا منافع کی پیش کش کی۔ میں لالچ میں آ گیا اور زندگی بھر کی جمع پونجی اسی بینک میں جمع کر دی۔ بینک فراڈ نکلا اور سارے پیسے لے کر رفو چکر ہو گیا۔ یہ وقت میرے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ باقی پیسے فراڈ بینک پر کیس کرنے میں ڈبو دیے۔ در در کی خاک چھانی، مگر کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ زندگی بھر دو نمبری سے کمائی ہوئی دولت لمحوں میں ختم ہو گئی۔ اہل خانہ میرے اس رویے سے نالاں تھے۔ بیوی گھر چھوڑ کر میکے چلی گئیں۔

ایک ٹھنڈی آہ بھر لی اور لپک کر میرا ہاتھ تھامتے ہوئے کہنے لگا عزیز من! علامہ شیخ سعدی کا قول پوری طرح صادق آتا ہے کہ ”تو اگر اپنے فرماں بردار غلام کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش نہیں آئے گا تو وہ تجھے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ مہربانی کر مہربانی تاکہ غیر بھی تیرا غلام بن جائے۔“ الغرض اولاد نکمی ثابت ہوئی۔ لڑکے تھوڑے بڑے ہوتے ہی میرے کنٹرول سے نکل گئے۔ بھلا جس شخص کی پرورش حرام لقمے پر ہو، اس سے اچھی نسل کی امید کیونکر رکھی جا سکتی ہے۔ کیا تو نے شیخ سعدی کا وہ قول نہیں سنا، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ بھلا کوئی کیسے خراب لوہے سے اچھی تلوار بنا سکتا ہے؟ بہرحال گھر ٹوٹ کر بکھر گیا۔

میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوا اور عارضہ قلب میں مبتلا ہو گیا۔ ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا۔ میں ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیاں بھی استعمال کرنے سے گریز کرتا تھا کہ طب فرنگی سے انفیکشن ہوتی ہے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب رپورٹس لے کر آئے اور بڑی تفکرانہ انداز میں گویا ہوئے کہ جناب! آپ کے سینے میں چربی کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ تو میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر سوچنے لگا پھر کہنے لگا ”بندہ خدا یہ وہی چربی ہے جو تم لوگوں کو مکھن میں ملا کر بیچ دیتا تھا“ ۔

وہ ماضی کے جھروکوں سے حقیقت کا آئینہ دکھاتا جا رہا تھا اور احساس ندامت سے پانی پانی ہوتا جا رہا تھا اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔ میں اسے تسلی دیتے ہوئے گویا ہوا کہ چچا جان یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے، کفر شرک ہے اور شرک انسان کو جہنم پہنچا دیتی ہے۔ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اللہ کی پاک ذات پر کامل ایمان ہے کہ وہ اپنے بندے سے بے پناہ محبت رکھتا ہے۔ آپ بس اللہ سے اپنے کوتاہیوں کی بخشش طلب کیجیے۔ وہ رحمان و رحیم ہے۔ اس کے در سے کوئی مایوس نہیں لوٹتا۔

افسوس صد افسوس! میں نے دنیا کی بے ثباتی سمجھنے میں دیر کر دی۔ جب ہوش میں آیا تو سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ میری جوانی، دولت اور اولاد جیسی نعمت سب زمین بوس ہو چکی تھی۔ اب ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ اپنی ماضی سے بہت شرمندہ ہوں۔ بیٹا! میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں، آپ لوگوں کو بتائیں کہ وہ دولت و ثروت سمیٹنے کی خبط سے اور دنیاوی جاہ و جلال سے خود کو آزاد کریں۔ کیونکہ حریص آدمی تو ساری دنیا لے کر بھی بھوکا رہتا ہے۔ اللہ نے جس حال میں رکھا ہے اسی میں خوش رہنے کی کوشش کیجیے۔ خلق خدا کی خدمت کیجیے۔ اسی میں سکون اور دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی ہے اور بس۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments