لاہور کی مختصر تاریخ


محلہ بلال گنج

اس محلہ کا نام مسجد نبوی میں سرور کائنات کے مقرر کردہ موذن حضرت بلال حبشی کی مناسبت سے ہے۔ اس محلہ میں دو عظیم شخصیات کا قیام رہا۔ ایک کا تعلق فلمی گلوکاری سے تھا جبکہ دوسری شخصیت کا تعلق علم و ادب اور تعلیم و تربیت سے رہا۔

ایک چھوٹے سے قد کے حاجی علی محمد نے 1901 کی دوسری دہائی میں امرتسر کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ سے اہل و عیال سمیٹ محلہ بلال گنج میں رہائش اختیار کی۔ نہایت ملنسار اور مودب ان حاجی صاحب کا ہنر کھانا پکانے میں تھا۔ اور شادی بیاہ کے موقع پر آپ کے پکوان اپنی لذت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ اور اگر دولہا ”سوہنی کے بینڈ“ کے ساتھ برات لے کر آئے تو یہ شادی بڑے ”ٹھاٹھ“ کی تصور کی جاتی تھی۔ ان حاجی صاحب کے چھ بیٹے تھے جن کا ”ہنر کدہ“ بھاٹی دروازہ کے محلہ چومالہ میں تھا۔

دوسرے بیٹے کا نام محمد رفیع تھا اور ہنر مند ہونے کے علاوہ انہیں گانے کا شوق تھا۔ فرصت کے وقت اس شوق کو اکیلے یا دوستوں کی فرمائش پر پورا کرتے تھے۔ کبھار استاد عبدالوحید خان یا استاد بڑے غلام علی خان کا گانا سننے چلے جاتے تھے۔ لیکن ان کی نہ تو شاگردی کی اور نہ ہی کلاسیکی گائیکی سیکھی۔ میں نے متعدد بار بچپن میں ان کو صبح کے وقت اپنے گھر کے سامنے داتا دربار روڈ سے بھاٹی دروازہ کی طرف جاتے دیکھا۔ دوستوں کی مجلس میں گاتے آپ کی آواز کی شہرت شاہی محلہ ہی کے ایک میوزک ڈائریکٹر جناب فیروز نظامی تک پہنچی۔

انہوں نے اس گوہر کو پہچانتے ہوئے ان کو 1944 ء میں پنچولی فلم آرٹ سٹوڈیو میں متعارف کرا دیا۔ یہ آپ کے فن کو ہندوستان کی فلمی دنیا میں پس پردہ گانے کی پہلی منزل تھی۔ اسی سال ہی آل انڈیا ریڈیو نے آپ کو گانے کے لیے مدعو کیا۔ اور پہلی بار ہی فلم ”گل بکاؤلی“ میں زینت بیگم کی سنگت میں ایک گیت گایا۔ 1946 ء میں ”اس شخص نے شہر ہی (لاہور) چھوڑ دیا“ اور فلمی دنیا کے قبلہ و کعبہ ممبئی چلے گئے۔

ممبئی میں جاتے ہی آپ نے فلم ”انمول گھڑی“ میں ایک گانا گایا۔ لیکن آپ کی شہرت کا سورج 1947 ء میں شوکت حسین رضوی کی فلم ”جگنو“ میں طلوع ہوا۔ اس فلم کے کئی ”اول“ تھے۔ میوزک ڈائریکٹر فیروز نظامی نے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ تنویر نقوی کے لکھے ہوئے نغمہ ”یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے“ کے دوگانے میں محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ اس گانے میں رفیع کی پر سوز ادائیگی، لوچ، نکھار اور نگار نے ایک تہلکہ مچا دیا۔

یہ صرف ابتدا تھی اور اس کے بعد آپ کا عروج اور صرف عروج کا سفر شروع ہوا جو آپ کی وفات پر ختم ہوا۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار تھے اور ان کا عروج بھی اسی فلم سے شروع ہوا۔ اس فلم میں ملکہ ترنم نور جہاں کے علاوہ ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے بھی پہلی بار کسی فلم میں آواز کا جادو جگایا۔ اس گانے کے بول ”دیس کی پرکیف رنگین فضاؤں میں کہیں“ مطلع تھا جبکہ ”ختم ہوتی ہے یہاں پر دو دلوں کی داستان“ اس کا مقطع تھا۔

آواز کے نکھار نے دیگر میوزک ڈائریکٹر صاحبان کو متوجہ کیا اور پھر مشہور و معروف نوشاد علی، شیام سندر، اوپی نیئر، لکمشی لال پیارے لال، ایس۔ ڈی۔ برمن اور ان کے بیٹے راہول ڈی برمن نے بار بار آپ کی آواز کو فلموں میں پیش کیا۔ سب سے زیادہ آپ کی آواز کو شنکر جے کشن نے استعمال کیا۔ آپ نے موسیقی کے ہر معروف انداز، کلاسیکی، نیم کلاسیکی بندش میں غزل، گیت، ٹھمری، دادرا اور مزاحیہ وغیرہ میں اپنی آواز کا جادو جگایا جو دوسرے پس پر دہ گانے والوں سے ہمیشہ منفرد رہا۔

اردو زبان کے علاوہ آپ نے پنجابی، بنگالی، بوجھ پوری، مراٹھی، سندھی، تلنگی، گجراتی، غزلی، فارسی، حتیٰ کہ انگریزی زبان کے گانے ایسی خوبصورتی اور تلفظ سے گائے کہ موسیقی کے رموز جاننے والوں کو بہت متاثر کیا۔ اپنے زمانے میں تمام مشہور مغنیہ شمشاد بیگم، لتا منگیشکر، گیتا رائے اور آشا بھوسلے کے ساتھ دو گانے پیش کی۔ سب سے زیادہ دو گانے آشا بھوسلے کی سنگت میں پیش کیے۔

آپ کی گلوکاری اور ادائیگی کا کمال یہ تھا کہ پس پردہ میں جس اداکار پر آپ گا رہے ہوتے تھے۔ اس پر اپنی آواز ڈھال لیتے تھے۔ پس پردہ دلیپ کمار کے علاوہ آپ نے دیو آنند، ششی کپور، اور گرو دت کے لیے بھی گانے ریکارڈ کرائے۔ آپ نے تقریباً چار دہائیاں فلمی دنیا میں اپنی گلوکاری سے راج کیا اور تقریباً 7500 گانے گائے۔ آپ کی آواز کا کمال اور اعتراف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو گلوکاری کے شبہ میں 6 بار فلم فیئر ایوارڈ دیے گئے اور تین دفعہ بنگال فلم جرنلسٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

1967 ء میں حکومت ہند نے ”پدما شری“ کے ایوارڈ سے نواز اور پھر 1977 ء میں نیشنل ایوارڈ دیا گیا۔ آپ نے حکومت کی طرف سے رائل البرٹ ہال اور و ملبے کانفرنس میں بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ لاہور سے جانے کے بعد نہ آپ پلٹے، نہ مڑ کر دیکھا کیونکہ شاید کسی کی نگاہیں سانس دھامے آپ کا انتظار نہیں کر رہیں تھیں۔ آپ نگری کا راستہ مکمل طور پر بھول گئے اور جولائی 1980 ء میں ممبئی ہی وفات پائی۔ حکومت ہند نے بھی آپ کے سوگ میں تعطیل کا اعلان کیا۔

کہا جاتا ہے کہ آپ کے جنازے میں فلمی دنیا کے تمام ادا کاروں، میوزک ڈائریکٹر صاحبان، ہدایت کاروں کے علاوہ ہر دین، دھرم کے تقریباً 10,000 افراد نے شرکت کی۔ گنز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں سب سے زیادہ گانے والے کے طور پر آپ کا نام درج ہوا۔ جس پر لتا منگیشکر نے اعتراض کیا۔ آپ نے اپنی حیات کا آخری گانا ”شام کیوں اداس ہے دوست“ فلم آس پاس میں لکشمی کانت پیارے لال کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پیش کیا۔ آپ کا موسیقی کے کسی ”گھرانے“ سے تعلق نہیں تھا۔ آپ کا اپنا گھرانا بلال گنج لاہور تھا۔

اپنے گھر کے سامنے داتا دربار روڈ پر ایک درمیانہ قد کے سرخ و سپید عمدہ سوٹ میں ملبوس اپنے ناک پر رومال رکھے ہوئے نپے تلے قدموں کی چال میں ایک صاحب کو جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک سال بھر ان کی محبت، شفقت اور شاگردی میں گز رے گا۔ یہ تھے جناب مرزا مقبول بیگ بدخشانی جو اس وقت گورنمنٹ سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال میں ٹیچر تھے۔ (میں 1944 ء میں اسی سکول میں جماعت پنجم میں داخل ہوا تھا) محترم مرزا صاحب کا بعد میں اپنے اس سکول سے گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ فارسی کے پروفیسر کے طور پر تبادلہ ہو گیا۔

اور وہیں سے ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد آپ علم اور درس تدریس کی خدمت میں زیادہ مصروف ہو گئے اور اپنے وسیع تجربہ کی بنیاد پر خاص طور پر بچوں کی تعلیم کے متعلق اردو کے قاعدہ سے لے کر اردو کی پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچوں کتاب تصنیف کیں۔ بچوں کی سائیکی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے غیر نصابی کتابیں ”پرندوں کی باتیں“ اور اپنی بیٹی کوثر کے نام پر ”کوثر کا گھر“ لکھیں جو بچوں میں بہت مقبول ہوئیں۔

اس کے علاوہ مغل بادشاہ شاہجہان کے ولی عہد شہزادہ داراشکوہ کی اپنے مرشد حضرات میاں میر صاحب ؒ پر فارسی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ”سکینۃ الاولیاء“ کا اردو زبان میں نہایت مدلل اور موثر ترجمہ کیا۔ تاریخ ایران کی دو جلدوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ جس پر ادب خامہ ایران نے آپ کو ”نشان سپاس“ سے نواز۔ آپ پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ معارف اسلامیہ اور انسائکلوپیڈیا آف اسلام میں تا حیات میں بھی کنٹری بیوٹ کرتے رہے۔ اردو سائنس بورڈ کی اردو لغت کی مستند اور مربوط تشکیل بھی آپ کی علمی بصیرت کا ثبوت ہے۔

اسی محلے کی ایک درمیانی گلی کے آخر میں ”مرغوب“ منزل کے نام کا ایک وسیع مکان تھا یا ہے۔ اس کا ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کے بعد تا حد دریا راوی کھیت ہی کھیت تھے۔ گو اس مکان میں میرا ایک دوست کرامت بھی رہتا تھا۔ جو ایم۔ اے۔ او کالج کے پرنسپل کے طور پر ریٹائر ہوا۔

(تحقیقی ریسرچ میں میرا ایک مقابلہ 1980 ء میں پیرس ( فرانس ) کے ایک سہ ماہی سائنس رسالہ Bulletin of international Epizootics میں شائع ہوا۔ یہ رسالہ بیک وقت انگریزی کے علاوہ ترجمہ کے ساتھ فرنچ اور سپینش زبان میں شائع ہوتا ہے )

سید احسان کاظمی
اس سیریز کے دیگر حصےداتا کی نگری: لاہور کی مختصر تاریخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید احسان کاظمی

سید احسان کاظمی سنہ 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں ہی تعلیم پائی۔ ان کی خاص دلچسپی تاریخ و ادب میں ہے۔ انہوں نے تقسیم سے پہلے اور بعد میں لاہور کو جس طرح بنتے بگڑتے دیکھا، اور یہاں کے ادیبوں اور مشاہیر سے جو تعلق رہا، اسے انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔

syed-ahsan-kazmi has 5 posts and counting.See all posts by syed-ahsan-kazmi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments