کیپ ٹاؤن کی اشرافیہ کا پانی کیسے بند ہوا؟



ساؤتھ افریقہ براعظم افریقہ کا یورپ ہے۔ اس کے اردگرد براعظم افریقہ کی تھرڈ ورلڈ اور بعضے فورتھ ورلڈ علاقے آباد ہیں۔ ساؤتھ افریقہ نیلسن مینڈیلا اور اپنے سونے اور ہیرے کی کانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کیپ ٹاؤن اس کا دارالحکومت ہے۔

کیپ ٹاؤن میں ایلیٹ سے بھی کئی درجے اوپر کی کلاسز آباد ہیں۔ جن میں مافیا ڈان، بزنس ٹائیکونز اور کونگلومیریٹس کے ہیڈز، دنیا بھر کے مشہور کنگز ود آؤٹ کنگڈم اور سیلیبریٹیز سر فہرست ہیں۔ اس شہر کا لائف سٹائل الٹرا ماڈرن ورلڈ سے زیادہ شاندار ہے۔ یہاں صاحب لوگوں کے کتوں، بلیوں اور دیگر پالتو جانوروں کو نہلانے ان کی گرومنگ کرنے، ان کی جیولری میک اپ وغیرہ مینٹین کرنے کے لئے پوری پوری کمپنیاں کام کرتی ہیں اور باقاعدہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کتے نہلانے والے مینیجرز اور ان کی ٹیم ہائر کرتا ہے۔ ان لگژری محلات میں چار پانچ سوئمنگ پول اور ہر روز ان کا پانی تبدیل کرنا ایک نارمل بات ہے۔ یورپ کے اکثر ٹائیکونز کی یہاں اپنی رہائش گاہیں ہیں۔

اس شہر کو مصنوعی اور قدرتی جھیلوں کے ذریعے پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہر کا زیر زمین پانی یا تو ناقابل استعمال ہے، کھارا ہے یا پھر انتہائی گہرا یا اکثر مقامات پر زیر زمین موجود ہی نہیں ہے۔

یہ دنیا کا عجیب شہر تھا جہاں پانی انتہائی مہنگا ہونے کے باوجود بے انتہا لاپرواہی اور کثرت سے استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ اس کے مکینوں کی بلیک منی کی ڈکشنری میں مہنگائی نام کا کوئی لفظ نہیں تھا۔

یہ شہر ٹھیک ٹھاک طریقے سے اپنی روش پر چل رہا تھا کہ سن دو ہزار سترہ کا موسم گرما آ گیا اور اس شہر کو پانی سپلائی کرنے والی تمام جھیلیں سوکھ گئیں اور آناً فاناً یہ شہر دنیا کا پہلا شہر بن گیا جہاں آفیشلی پانی ختم ہو گیا۔

شہر میں ہنگامہ مچ گیا۔ پورے ساؤتھ افریقہ میں کہرام برپا ہو گیا۔ حکومت پر پریشر پڑ گیا۔ دوسرے شہروں سے پانی ٹرانسپورٹ کروایا گیا لیکن کہاں تک۔ آخر حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی۔ شہر کے مکین چونکہ تگڑے تھے لہذا بین الاقوامی کمیونٹی کو ساتھ ملایا گیا۔ ہر گھر کو فقط پچاس گیلن روزانہ کا کوٹہ الاٹ کیا گیا۔ گاڑی دھونے اور سوئمنگ پول بھرنے پر تین سو دو یعنی قتل کا مقدمہ درج کرنے فیصلہ کیا گیا۔

شہر کے تمام با اثر افراد کو اکٹھا کر کے ٹوائلٹس فلش کرنے کے لئے استعمال شدہ پانی استعمال کرنے پر راضی کر کے قانون سازی کی گئی۔ پورے شہر میں ٹوائلٹس میں یہ سسٹم لگوانا لازمی قرار دیا گیا۔ اسی طرح کے دیگر کڑے اقدامات کے بعد بھی جنوبی افریقن حکومت اس بحران پر قابو نہ پا سکی اور یہ کربلا دو سال برپا رہی۔ آخر دو ہزار انیس میں بارشیں ہوئی اور شہر کو پانی سپلائی کرنے والی جھیلوں کا لیول کچھ بہتر ہوا۔ تب جا کر شہر کو پانی کی سپلائی بحال ہوئی لیکن وہ اب پہلے جیسی نہ تھی۔ قوانین واپس نہ لئے گئے۔ اب ہر گھر کو فقط ایک مقررہ حد تک روزانہ پانی مہیا کیا جاتا ہے۔

کیپ ٹاؤن اس معاملے میں تنہا نہیں ہے۔ کراچی، لاہور، ممبئی اور دنیا کے دیگر بڑے بڑے شہر اس فہرست میں اگلے نمبروں پر ہیں۔

یہ جو ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ اگلی جنگیں پانی پر ہوں گی یہ درست سنتے ہیں۔ سپر پاورز کو سپر پاور بنانے میں پانی پر کنٹرول ہمیشہ سے ایک اہم فیکٹر چلا آ رہا ہے۔

دنیا میں باقاعدہ اور آفیشل قسم کی سپر پاور سلطنتیں فراعین مصر کے ادوار سے شروع ہوئیں۔ مصر کے فرعونوں کی وادیٔ نیل سے شروع ہونے والی سلطنت پہلی باقاعدہ سپر پاور تھی۔ فرعون مصر ”سینوس رٹ سوئم“ اور بعد ازاں اس کے بیٹے ”ایمینم ہٹ سوئم“ نے دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل اور ڈیم بنایا تھا جس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پچاس ملین ایکڑ فٹ تھی۔

یہ جھیل کتنی بڑی تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ موجودہ سپر پاور امریکہ کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل ”لیک میڈ“ کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف اٹھائیس ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس وقت کے حقیقی بلاشرکت غیرے سپر پاور چین نے ”تھری گورجز ڈیم“ نامی دنیا کا سب سے بڑا ڈیم اور ہائیڈرو پاور پلانٹ بنایا ہے جس کی بجلی کی پیداوار ساڑھے بائیس ہزار میگا واٹ کے ساتھ سن دو ہزار بارہ سے لے کر آج تک ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ فراعین مصر سے لے کر آج تک کی ترقی یافتہ دنیا پانی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ پانی معیشت ہے۔ پانی پیداوار ہے۔ پانی زندگی ہے۔

دنیا تیزی سے فریش واٹر کو ذخیرہ کرنے پر کمر بستہ ہو رہی ہے۔ دبئی جیسے جن ممالک میں پینے کا پانی نایاب ہے وہ سمندر کا پانی صاف کر کے اسے پینے اور زراعت کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

جبکہ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ہم ہر سال مون سون اور برسات میں سیلاب کا سامنا کرتے ہیں اور اس کے بعد خشک سالی کا۔

ہمارے جن شہروں میں پچیس سال پہلے پینے کا صاف شفاف پانی چالیس فٹ پر نکل آتا تھا اب ساڑھے چار سو فٹ پر بھی نہیں نکلتا۔ زیر زمین پانی کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ وجہ فقط ایک ہے کہ ہم نے تربیلا اور منگلا کے بعد آج تک کوئی بھی بڑا ڈیم یا آبی ذخیرہ نہیں بنایا۔ دیامیر بھاشا ڈیم کا منصوبہ شروع ہوا تھا لیکن اس کی بھی کوئی خیر خبر نہیں آئی۔ کالا باغ ڈیم آج تک نہیں بن سکا کیونکہ ہم نوشہرہ کو ڈوبنے نہیں دیں گے چاہے پورا ملک کیپ ٹاؤن بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments