ہم نے بھی محبت کی تھی ۔۔۔


ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے سے نفرت او ر دشمنی کا اظہار تو برملا کرتے دیکھا ہے، لیکن محبت کا اظہار زیادہ تر فلموں اور ڈراموں میں ہی دیکھا ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ حقیقی زندگی میں بھی بہت سے لوگوں کو /کا یہ عمل ڈرامہ ہی لگتا ہے۔ نفرت اور دشمنی کی وجہ سے قتل اور خون خرابہ تو کسی عقیدے اور نظریے، یا آپ چاہیں سماج اور معاشرہ کہ لیں، کے لیے قابل قبول نہیں ہونا چاہیے لیکن تحیر و تعجب تو یہ کہ یہاں تو اظہار الفت اور انکار عشق پر بھی قتل کر دیے جاتے ہیں۔

کسی نے کسی سے اظہار محبت کیا اور ”تیری یہ مجال/ہاؤ ڈیر یو؟“ کہ کر مفعول کی طرف سے فاعل کو تھپڑ سے نواز دیا جاتا ہے، اور طاقتور ہونے کی صورت میں فاعل کو ایسی ”ڈیر“ پر ”ڈھیر“ کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کسی مفعول کو صاف یا مبہم انکار پر کسی فاعل کی طرف سے مقدور بھر اذیت دی جاتی ہے، تو کبھی کسی طاقتور تر کی طرف سے تشدد، طاقتور ترین کی طرف سے قتل اور زیادتی کے سفاکیت سے بھرپور نت نئے واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اور اخبارات، میڈیا اور فلم انڈسٹری کو لو اسٹوریز کے ساتھ ساتھ ہیٹ اسٹوریز کا سا اضافی مواد با سواد بیچنے کے لیے مل جاتا ہے۔

اور اگر کوئی تیر تلوار سے قتل ہونے سے بچ جاتا ہے تو بھی ”کلمات“ کی مار سے بچ نہیں پاتا، اور عربی گرامر کی، ہمارے جتنی تھوڑی سی شد بد رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ عربی لفظ کلمہ کا ایک مطلب زخمی کرنا بھی ہوتا اور ہم اسے اپنی زبان میں زبان کا زخم بھی کہ سکتے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھنے والے کچھ حضرات بھی اپنے کلمات و اعمال سے آج کل یہی کچھ کر رہے ہیں۔

ہم کسی یار دوست کا بہانہ نہ کرتے ہوئے اپنی ہی سچی کہانی سناتے ہیں، کہ ہم نے بھی ارلی نائنٹیز ( 1990 کے دہائی کی ابتدا میں ) وہ حرکت کر ڈالی جو یار لوگوں کی اکثریت ارلی ٹوئنٹیز میں بھی نہیں کر پاتی یعنی اظہار محبت۔ ورنہ گولڈن گرلز کو شاید یہ الفاظ نہ لکھنے پڑتے :

”تم اس مرد سے اعلی ٰظرفی کی توقع کر رہی ہو جو اپنی پسند کا اظہار گھر والوں سے نہیں کر سکتا، جو اپنی پسند کا اظہار اپنے آپ سے نہیں کر سکتا، جو اپنی پسند سے محبتیں تو کر سکتا ہے، شادی نہیں کر سکتا۔ جانتی ہو کیوں؟ اس لئے کہ یوں اس کے تابع دار ہونے کا امیج گھر والوں پہ رہے گا۔ دوم اس کی ذمہ داریاں آدھی ہو جائیں گی۔ کہ جناب آپ کی پسند کی تھی۔ اب جیسی بھی ہے آپ نے بھگتنی ہے اور خود کسی نئے سفر کو نکل جائے گا۔ کیونکہ اس کی تربیت لڑکی کی طرح احساس گناہ و ثواب میں نہیں کی جاتی۔ بلکہ وہ جو کچھ کرے، سب کا سب ثواب عین غین ہے۔“

ہم ان خواتین کی اس بات سے خاص طور متفق ہیں کہ ہم بھی نوجوانی میں ذمہ داری سے کتراتے تھے، اگرچہ تابعداری کی خو اس لیے نہ تھی کہ ہمارے بابا کا رویہ ہماری اماں اور اپنی اولاد سے حاکمانہ نہیں محبت بھرا اور سر پرستانہ تھا۔ جب کہ اماں بھی ایک محبت کرنے والی خاتون تھیں نہ صرف اپنے گھر سے بلکہ خاندان بھر سے بلکہ ہر کسی سے۔ ان کے بلند کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہماری شادی محلے کی اس لڑکی سے کرنا چاہتی تھیں جسے کوئی بھی اپنانا نہیں چاہ رہا تھا۔

اور ہم ان خواتین کے محولہ بالا قول کی روشنی میں یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ بہت سے حضرات جو کہ پہلے سے طے کرلیتے ہیں کہ سامنے سے انکار ہو جائے گا وہ اسی لیے اظہار محبت سے رک جاتے ہیں، بقول شاعر:

محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے
ترے ہونٹوں کی ہر جنبش نہیں معلوم ہوتی ہے

وہاں بعض اسی تابعداری اور ذمہ داری سے فرار کے باعث بھی اظہار عشق کرنے سے رہ جاتے ہیں، مطلب یہ کہ ان میں سے بہت سے اظہار عشق سے اس لیے نہیں ڈرتے ہیں کہ لڑکی انکار کر دے گی بلکہ اس لیے ڈرتے ہیں کہ ”اس نے ہاں کردی تو؟“

بہرحال ہم بھی کوئی اتنے بے باک نہیں تھے کہ مقصود (مراد محلے کی ایک اور لڑکی ہے، نہ کوئی لڑکا، کہ ہم ایسے ”گے“ تو ہیں، لیکن ویسے ”گے“ نہیں۔ اچھا قارئین کے سہولت کے لیے آگے ہمیں انھیں گوہر مقصود لکھیں گے ) کو براہ راست سب کچھ کہ دیتے، لیکن اولاً ان کے ایک قریب ترین عزیز سے مشورہ کیا تو انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ، ”بھائی مجھے اس کھکھیڑ میں نہیں پڑنا،“

تب ہم نے گوہر مقصود کے متوقع امیدوار سے دریافت کیا کہ، ”بھائی کیا تم اس معاملے میں سنجیدہ ہو؟“ وہ بھائی بڑے سعادت مند نکلے، بولے، ”بالکل سنجیدہ ہیں، آگے جو بڑوں کی مرضی!“

ان کی اس قسم کی سنجیدگی پر ہم سوائے رنجیدہ ہونے کے کچھ نہیں کر سکتے تھے، سو آخرکار اب یہ میٹھی گولی ہمیں ہی نگلنی تھی۔

ہم سچی بات بتاتے ہیں کہ ہم عشق سے زیادہ شادی کے قائل رہے ہیں۔ کہ مرد مومن عشق سے زیادہ شادی کے قائل ہوتے ہیں، فیس بک پر شاید کسی خاتون ہی کی اس قسم کی پوسٹ نظر سے گزری ہے کہ: نکاح مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔

دراصل جب سے ہوش سنبھالا گلی محلے میں کئیوں کو مبتلائے عشق پایا۔ ان کو بھی کہ جو بقول شخصے ابھی انڈے سے بھی نہیں نکلے تھے اور ان کو بھی کہ جن کو بقول انشا جی کے ”محبوب کا آگا پیچھا بھی معلوم نہ تھا“ ۔ اور بعض کی عبرت ناک درگت بھی بنتے دیکھی۔ تو عزم صمیم کر لیا کہ عشق نہیں کرنا۔ البتہ شادی شدہ لوگوں سے ہم کوئی عبرت حاصل نہ کرسکے۔ سو اب بھی ہماری نیت عشق کی نہیں خالصتاً شادی کی ہی تھی۔ اگرچہ ہماری وہ کیفیت نہ تھی جو کہ بھٹائی، جنہیں کہ آپ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے بھی جانتے ہیں کے ایک بیت میں ہے کہ:

”دل ڈھیر ساری ان کہی باتوں سے بوجھل
محبوب کہ کبھی گوشہ تنہائی میں نہ مل سکا ”

لیکن دل میں ایک بات تھی سو تھی۔ سو جب گوہر مقصود محض اتفاق سے، نہ سوئے اتفاق نہ حسن اتفاق، گوشہ تنہائی میں ملیں تو ہم نے اپنی ذہنی کیفیت کا اظہار کچھ غیر مربوط الفاظ میں کر دیا، کہ ”بی بی آپ کا کیا ارادہ ہے،“

اول تو بی بی مبہوت رہ گئیں، اس لیے نہیں کہ ہم کوئی شہزادہ گلفام تھے، بلکہ اس لیے ان کی دانست میں ہم محلے کے شریف نوجوان تھے، ثانیا ہماری جرات رندانہ پر ان کے چہرے پر نامحسوس سی مسکراہٹ ابھری اور، معدوم ہو گئی اور اس کی بجائے شاید اپنے مزعومہ جوابات پر ہمارے رد عمل یا ان کے انجام و عواقب پر سوچ کر پریشان ہو گئیں، ان کے لیے تو صورت نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی تھی کہ بعد از انکار ہمارے اور بعد از اقرار کسی اور کے پلے بندھ جائیں تو جانے کیا ہو۔

یہ بات محسوس کرنے کے بعد ہمیں افسوس ہوا کہ شاید ہمیں ایسا کچھ نہ کرنا چاہیے تھا حالانکہ ہم بات اس کے شدت سے قائل ہیں کہ والدین کو لڑکیوں سے ان کی مرضی رشتہ طے کرتے وقت دریافت کر لینی چاہیے، نہ کہ نکاح کے وقت سینکڑوں باراتیوں کے بیچ میں اس وقت اس قسم کا استفسار کیا جائے جب انکار کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ لیکن اس گوشہ تنہائی میں بھی وہ ہماری وجہ سے کچھ ایسی ہی کیفیت کی شکار ہو گئیں۔ اور پھر مختصر ترین سی بحث کے بعد جو کہا گیا وہ وہی کچھ تھا کہ کوئی بھی سعادت مند بچی کہتی۔ گویا ہوئیں، ”میں والدین کی مرضی کی پابند ہوں۔ بہتر ہوگا کہ آپ بھی اپنی والدہ کی پسند سے شادی کر لیں۔“

اگرچہ بات ختم ہو گئی، لیکن پھر بھی اپنی بات رکھنے کے لیے ہم نے ان کو اگلے دن تک سوچنے اور جواب دینے کے لیے کہا اور یوں یہ نشست برخاست ہو گئی۔ البتہ جب ہم اگلے دن دوبارہ ان سے ملنے کے لیے گئے تو ان کی حفاظتی حراست میں پایا، اور اس عمل کو ان کا اور ان کے والدین کا انکار جان کر گھر واپس لوٹ آئے۔

اس لیے نہیں کہ بدھو تھے بلکہ اسے لیے کہ عقل آ گئی تھی۔

اس کے بعد کچھ بزرگوں کے طفلانہ اور کچھ دوستوں کے بزرگانہ کلمات کے باعث اور گوہر مقصود کے براہ راست انکار کے بجائے اس طرح کے ردعمل سے کچھ ملال سا ہوا لیکن ان کی موہوم سی مسکراہٹ ہی کی طرح معدوم ہو گیا، کہ ”مردوں“ کے معاشرے میں جب بڑے بڑے حضرت بھی اظہار یا انکار کا رسک نہیں اٹھا سکتے تو کسی لڑکی کو کیا الزام دیجیے!

گوہر مقصود کے بعد ان دوسری خاتون کی طرف سے بھی انکار ہو گیا کہ، جو ہماری والدہ کی پسند تھیں اور جن سے ہماری شادی کے امکانات تھے، اور یوں ہمیں والدین کی رضا سے ایک تیسری خاتون کو اپنانا پڑا۔ قسمت نے یاوری کی، وہ ایک آدرش بیوی ثابت ہوئیں۔ والدین اور کتابوں کے بعد کسی نے ہمیں کچھ اچھا سکھایا بنایا تو وہی تھیں۔ بہت ہی نفیس اور منکسر المزاج۔ جس سال ہمارا عقد ہوا اسی سال کچھ ماہ قبل ہماری والدہ بھی گزر گئیں تھیں، سو انہوں نے ابا کی خدمت بیٹیوں سے بھی بڑھ کر کی۔ ابا کی ان سے محبت اور شفقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ابا نے ہماری معمولی تنخواہ کے پیش نظر کبھی کبھار چھپا کر بھی بیوی کے لیے کوئی سوغات وغیرہ لانے کی نصیحت تک کر ڈالی تھی۔

وہ ہمارے خاندان کو اپنا خاندان سمجھنے والی اور خاندان میں ہم سے زیادہ مقبول رہیں۔ ہم دونوں نے خوشی اور سرخوشی کا ایک عرصہ ساتھ گزارا اور اس دوران انہوں نے سرطان جیسی موذی بیماری کو تو شکست دے دی لیکن سولہ سال بعد ایک غیرمعمولی اعصابی بیماری سے ہار گئیں۔ ابا مضبوط اعصاب کے مالک تھے، اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کی فوت ہونے پربھی وہ روئے نہیں البتہ چہرے پر ایک پروقار سا ملال طاری رہا، اور انتقال سے قبل اسپتال میں امی کی طبعیت کے بگڑنے پر جب ہم روہانسے سے ہوئے تو انہوں نے ہمیں ڈانٹنے کے انداز میں تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے ان کو کبھی روتے نہیں دیکھا لیکن بہو کی موت پر ان کو اور شاید کسی سسر کو پہلی بار اشکبار دیکھا۔

غمگین تو ہم بھی کافی ہوئے اور ان کو بھلانے کے لیے دوسری شادی تک کر لی لیکن:
”موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments