میں تیرے منہ پر تیرا ہوں


وہ انسان جو اشرف المخلوقات کا مفہوم جانے بنا ہی اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز سمیٹ رہا ہے۔ اللہ تعالٰی کی ایسی افضل خلق جس میں ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا جذبہ اس کے خمیر میں شامل ہے۔ اگر کبھی کوئی خطا سرزد ہو تو اس کو اعلیٰ ذریعے سے سدھارنے کا فن بدرجہ اتم موجود ہے۔ لیکن اگر کوئی گناہ ہو جائے تو سب سے پہلے اس انسان کو نادم ہونا چاہیے، توبہ کرنی چاہیے اور دوبارہ کبھی نہ کرنے کا پختہ عزم بھی۔

آج کل کے انسانوں کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے کالے گناہوں پر سفید چادر ڈالنے میں ماہر کھلاڑی ہیں۔ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے دوسروں کی عیب ٹٹولنا اور چن چن کر ان عیبوں کو دنیا کے سامنے آشکار کرنا۔ یہ لوگ اول تو اپنی ذات میں منافق کہلاتے ہیں۔ جو خود کو فرشتہ صفت گناہوں کے انبار سے عاری روح کے پروانے سمجھتے ہیں۔ ان کے دل کے چراغوں میں ایک الگ ہی قسم کی روشنی پنپتی ہے جس میں لاکھوں رنگ جھل مل کرتے ہیں۔ لیکن ان کے لبوں پر کچھ الگ ہی تمناؤں اور خواہشوں کے ترانے محو رقص ہوتے ہیں۔

وہ تنہا ایک کمرے میں ایک الگ ہی منطق کے زندہ (کم مردہ) لوگ ہوتے ہیں لیکن دنیا کے روبرو وہ ایک ایسی کھلی کتاب نظر آتے ہیں جو آنکھ بند کر کے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ لوگوں کے سامنے وہ ان کی مرضی کا لبادہ اوڑھے چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنے اندر اپنی کوفت زدہ ویرانی میں آباد ہوتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں میں بستے ہیں جو زندہ تو ہیں لیکن ان کی انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ وہ چاہے کھلی آنکھوں سے خواب سجائے بیٹھے ہیں لیکن ان کا ضمیر ایک خول میں مقید ہے۔

ایسوں کی ہر سانس میں منافقت رواں دواں ہے الغرض وہ سانس لینے کو تو عیب گردان سکتے ہیں لیکن منافقت کو نہیں۔ ان کے چہرے پر ایک دو نہیں ہزاروں خصلتوں کے نقاب چسپاں ہوتے ہیں۔ اب یہ ضرورت کا ترازو وزن کرتا ہے کہ روبرو نفس کو کس پیمانے کے نقاب میں تولنا ہے۔ ایسوں کی عمدہ خصلت یہ ہے کہ آپ کو زمین پر گرانے کے لئے دھکا نہیں بلکہ سہارا دیں گے۔ بلا حاجت و ضرورت، بار بار آپ کے لئے لمبی لمبی تعریفوں کے پل باندھ کر آپ کو ان پر چلنے کا مشورہ دیں گے۔

سفید و روشن دمکتی پیشانی لیے اپنے اندر کی سیاہ رات کو دل کے سمندر کی تہوں میں محلول کر دیں گے۔ منافق اول تو اپنے آپ سے منافقت کرتا ہے۔ جیسے ہم اللہ تعالٰی کی ذات کو مانتے ہیں لیکن اس کی ایک بھی نہیں مانتے۔ منافق کے خیالات کو تبدیل کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانا۔ یہ اپنی شیریں گفتگو کا جال بچھا کر آپ کو اس میں ایسا پھنسائیں گے کہ نکلنا دو بھر ہو جائے۔ اپنے سنہرے لفظوں کی چمک میں الجھا کر آپ کے دل کو رنگین کر دیں گے۔

لیکن پس منظر کی حقیقت کچھ الگ سی ہے کہ ان کے لہجے آپ کی کردار کشی سے لبریز ہیں۔ ایسے لوگ اپنے گناہ کو عام سی غلطی قرار دیتے ہیں اور اپنے سامنے موجود دوسرے انسانوں کی ایک ذرا سی کوتاہی بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں سمجھتے۔ ایک دانا کا قول ہے کہ ”ہائے وہ لوگ! اوروں کے کردار کی دھجیاں بکھیر کر خود کو پاک کرنے والے“ ۔

اگر منافقت کا تعلق کسی لباس سے ہوتا تو آج ہر انسان ایک ہی وقت میں ہزاروں الم غلم ملبوسات میں نظر آتا۔ لیکن منافقت کا یہ بھاری بوجھ وہ اپنے نازک سے دل میں دبا کر اس کی ہلکی سی جنبش بھی ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ منافقت کو اپنا دست بازو بنانے کا مقصد صرف ذاتی مفاد ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں چمکتے چند حسین و جمیل خوابوں کی تعبیر کے لئے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں روشن کیے جانے والا چراغ منافقت ہے۔ دنیا کی دوڑ میں جلدی کامیابی و کامرانی پانے کا واحد ذریعہ لفظوں کے چمکتے دمکتے جگنو ہیں جو منافقت کی روشنی میں جل رہے ہیں۔

فوراً ترقی پانے کی جستجو میں منافق کسی کی بھی خوشامد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ویسے ہی وہ آپ سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور آپ کو پلٹ کر دیکھنا بھی اپنی دانست میں توہین سمجھیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ منافقین کا مقام رب باری تعالیٰ نے جہنم کا آخری گڑھا مقرر کر رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments