سندھ کے گاؤں جدید دور میں بنیادی سہولیات سے محروم


عید قربان کے دو روز بچوں کے ساتھ گاؤں میں گزارے، گھر والے بچے بڑے شوق سے عید کرنے گاؤں روانہ ہوئے۔ سکر سے جنوب کی طرف تاریخی طور پر مشہور قلعہ اروڑ کے قریبی علاقے کندھرا میں واقع ہمارا چھوٹا سا گاؤں ہے جو کہ باغ فتح علی شاہ کے نام سے مشہور ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اب تک بنیادی سہولیات سے ہمارے گاؤں سمیت ارد گرد کے تمام دیہات آج بھی نہ صرف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، بلکہ وہاں کے علاقہ مکین جدید دور میں بھی بدترین جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ہمارے گاؤں سمیت سندھ کے دیہات ٹیکس ادا کرنے کے باوجود پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہیں۔ آج بھی ہمارے گوٹھ سمیت سندھ کے 90 فیصد گوٹھوں میں گیس کی سہولت تک موجود نہی ہے۔ جبکہ گیس کی کراچی جانے والی گیس لائن صوبائی ہیڈ کوارٹر سکھر میں ہے۔ مین لائن ہمارے گاؤں کے عقب سے گزرتی ہوئی کراچی تک جاتی ہے۔ یہاں کے لوگ آج بھی پینے کا صاف پانی نہ ملنی کی وجہ سے مضر صحت پانی استعمال کرنے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اے بی سی کا شکار ہو رہے ہیں۔

آبادی کے حساب سے ہر پانچواں شخص ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہے۔ جبکہ گوٹھوں میں سوئی گیس کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے 100 فیصد خواتین گھروں میں لکڑیوں پر آگ جلا کر کھانا پکاتی ہیں۔ یہ کھانا پکانا کس طرح مشکل ہوتا ہے ان سے کوئی پوچھے، سخت گرمی میں کیسا مشکل کام ہے۔ گاؤں کی خواتین سخت گرمی سردی میں لکڑیوں پر کھانا پکاتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے سانس سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتی ہیں۔ جبکہ دیکھا جائے تو ملک میں گیس کی 50 فیصد سے زائد پیداوار سندھ سے ہوتی ہے۔

اور بدلے میں سندھ کے گاؤں گوٹھوں کو گیس نہی دی جاتی ہے۔ گیس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شہروں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو اکثریت غریب عوام کی ہے وہ کہاں جائیں؟ سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا بڑا مسئلہ ہے۔ شہروں کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو گوٹھ گاؤں میں عوام کو جدید دور کے باوجود بجلی کی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ رمضان المبارک کا ماہ ہو یا عید قربان ہو۔

خواہ 12 ربیع الاول ہو یا محرم الحرام کا ماہ ہو لیکن بجلی نہی ملے گی۔ سال بھر کے حساب سے 3 ماہ بھی مشکل بجلی چل رہی ہوتی ہے۔ بلب پنکھا چلانے والے غریب کسانوں ہاریوں پر لاکھوں روپے کی ڈیڈکشن لگائی جاتی ہے۔ نہ وہ بل ادا کر سکتے ہیں نہ ان کو سال بھر بجلی مل سکتی ہے۔ اس گرمی سردی میں بھی سب سے زیادہ خواتین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ گاؤں گوٹھوں کے لوگ محنتی و محنت کش اور مزدور قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کی آمدنی دیکھی جائے تو ان کا گزارہ بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

مگر کے بچوں کو معیاری تعلیم تک میسر نہی ہوتی۔ غریب بچے اسکول جانے کے بجائے زمینوں پر اپنے والدین کے ساتھ ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں۔ ان بچوں کو تعلیم تو دور کی بات ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی نہی ہوتی۔ علاج معالج ادویات تک نہی ملتی ہے۔ غریب جب بیمار ہوتا ہے تو وہ نجی ہسپتالوں میں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں انہیں علاج نہی ملتا مجبوراً وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سکھر سمیت سندھ بھر میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔

لوگ جانوروں کے ساتھ جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جبکہ دیکھا جائے تو ہمارے لیے یہ ہی لوگ گندم، چاول، جو، سبزیاں کاشت کرتے ہیں اور فروٹ اگاتے ہیں۔ اتنا مشقت والا کام کرنے کے باوجود نہ انہیں وہ اجرت ملتی ہے نہ کوئی سہولیات میسر ہوتی ہے۔ عید کے پہلے دن ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سکھر کے دیہات میں عید کے پہلے روز گرمی پارہ 50 تک تھا، جس کی وجہ سے حبس اتنا تھا کہ جان جا رہی تھی۔

میرے چھوٹے بچے بار بار اسرار کر رہے تھے کہ اے سی چلائیں۔ ہم تو انہی تسلی دے رہے تھے کہ بجلی آنے والی ہے بس گرمی ختم ہو جائے گی۔ شہر میں رہنے والے بچوں کو کیا بتائیں کہ یہاں تو ائر کولر یا پنکھا ہی چل جائے وہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ سولر کی پلیٹ پر 12 وولٹ والا پنکھا تو چل رہا تھا مگر اتنی کم ہوا کہ وہ بھی کسی کام ہی نہیں تھا۔ ہم جب شہروں میں رہنے کے باوجود کبھی کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے یا گیس پر کم ہوجاتا ہے یا پینے کا پانی ایک دو روز بند ہوجاتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے قیامت برپا ہو کر رہ گئی ہو مگر یہ بنیادی سہولیات اگر سال بھر گاؤں میں نا بھی ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

گاؤں کے لوگ ہمارے لیے چاول، گندم، سبزیاں، فروٹ، اور دیگر کھانے کی اشیاء اگاتے ہیں۔ جانور پالتے ہیں اور دودھ دہی مکھن تک تیار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کو کیا ملتا ہے۔ سال کے 12 مہینے ان کو پہننے کے لئے جسم ڈھانپنے کے لئے کپڑا تک نہی ہوتا۔ رہنے کے لئے کچی چھت ہوتی ہے۔ اور روڈ راستے تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ کچے راستے اگر بارش ہو جائے تو گھومنے آنا جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان دیہات گاؤں کو بنیادی سہولیات تک نہی دی جا رہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے دیہات گاؤں صاف ستھرے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ جیسے فارم ہاؤس ہوں، مگر جب سہولیات نہ ہوں تو یہ گاؤں آپ کو کھانے آ جاتے ہیں۔ آپ ایک دن یا رات بڑی مشکل سے گزارتے ہیں۔ دوسری اور اہم بات امن امان کی صورتحال خراب ہونا ہے۔ جتنا امن امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کا رونا شہروں میں رویا جاتا ہے، اس سے زیادہ صورتحال دیہات کی خراب ہوتی ہے۔ جہاں وڈیروں سرداروں اور منتخب نمائندوں کا راج قائم ہوتا ہے۔

عوام کو اگر تحفظ فراہم کیا جائے اور ساتھ میں بنیادی سہولیات جو ہمارا آئین قانون دیتا ہے اگر وہ فراہم کی جائیں تو یقیناً گاؤں کی دنیا ہی نرالی ہے اور پرسکون۔ مگر جب بنیادی سہولیات ہی نہ ہوں تو وہ ہی گوٹھ گاؤں کھانے کو آ جائے ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ فزیکلی طور پر محنت مشقت کام کرنے والے مزدور لوگوں کو ان کے در پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں۔ امید ہے کہ جب ہم اگلی بار گاؤں جائیں گے تو ہمیں رہنے میں کوئی مشکلات نہی ہوگی۔ اسی طرح پورے ملک کے دیہات کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments