ڈاکٹر صاحب کیا آپ کی اسناد دیکھ لوں؟


کمال بات یہ ہے کہ جب سر پے ہتھوڑا پڑ کے گومڑا بن جاتا ہے تب ہم سوچنا شروع کرتے ہیں کہ یہ کس نے مارا۔ حالانکہ صاحبِ ہتھوڑا ایک عرصے سے ہمارے اطراف ہی گھوم رہا ہوتا ہے اور ہم شتر مرغ بنے خود سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ یہ ذہنیت عارضی یا کسی خاص واقعہ یا سانحے سے مشروط نہیں بلکہ ہماری مسلسل انفرادی و اجتماعی ذہنی کیفیت کی آئینہ دار ہے اور اس کا مظاہرہ ہمارے روزمرہ کا جزو لاینفک ہے۔

جیسے سی ڈی اے ہو کہ بلڈر مافیا کہ مکین۔ سب جانتے تھے کہ قدرتی پہاڑی نالوں کے منہ میں کنکریٹ ٹھونسنے کے باوجود یہ نالے پابندِ نے نہیں رہیں گے اور کسی نہ کسی دن ٹکا کہ آپ کے ہی بوتھے پر دلتی ماریں گے اور جب اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں سیلابی ریلے سے گاڑیاں تیرنے اور بہنے کے مناظر سے آنکھیں پھٹیں تب کہیں جا کے ہر سرکاری وغیر سرکاری ماجھے ساجھے نے اوور ایکٹنگ کے جوہر دکھاتے ہوئے کہا ’’اچھا ! تو ای الیون میں نالوں پر تجاوزات تھیں ؟ ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا۔ ‘‘

اچھا تو سانپ کاٹتا بھی ہے ؟ بھلے اسے دودھ بھی پلاتے رہیں۔ پھر بھی ؟ اچھا مسلمان ملک میں بھی ایڈز کے مریض ہوتے ہیں ؟ واقعی ؟ کیا کورونا سے واقعی لوگ مر رہے ہیں؟ تو یہ یہودی سازش نہیں ہے؟ مطلب اس میں حرام چربی اور ڈیجیٹل چپ بھی نہیں ؟ ہمیں کیا معلوم۔ اچھا تو دہشت گرد پلٹ کر بھی وار کرتے ہیں؟ ہائے ہائے پہلے کیوں نہ بتایا؟

کچھ ایسا ہی رویہ نور مقدم قتل کیس میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کچھ کو واقعی دکھ ہے۔ چند ’’ افسردہ خوشی ‘‘ سے نہال ہیں۔ کچھ اسے بے راہروی سے متعلق اپنے بیانیے کی فتح قرار دیتے ہوئے سینہ پھلا رہے ہیں۔ دیکھا ہم تو پہلے ہی کہتے تھے۔ اور کچھ آیندہ ایسے سانحات سے بچنے کی احتیاطی تدابیر سمجھا رہے ہیں۔ کچھ ایک طنزیہ حیرت میں مبتلا نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم تو سمجھتے تھے قتل وتل، سر ور کاٹنا اور نفسیاتی امراض صرف محروم طبقات یا جنونی نظریات کے پسماندہ و ناخواندہ پیروکاروں کا مسئلہ ہے۔ اس مرض کی لپیٹ میں خوشحال پڑھی لکھی ولایتی ذہن زدہ اشرافیہ کے بچے کیسے آ گئے ؟

جب ایسی ہائی پروفائل واردات پر آنکھیں چندھیانے والی سرچ لائٹ پڑتی ہے تو بہت سے وہ گوشے بھی چمک اٹھتے ہیں جو عام روشنی میں دکھائی نہیں دیتے۔ جیسے اس قتل کے طفیل یہ سوال بھی اٹھ گیا کہ قاتل تو خود تھراپی ورکس نامی ادارے کی نہ صرف نگرانی میں تھا بلکہ وہاں نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکنیں دور کرنے والے کورس کے لیول تھری کا بھی طالبِ علم تھا اور ایک اعلیٰ مہنگے اسکول میں بچوں کو نفسیاتی کاؤنسلنگ کے بنیادی مبادیات سے بھی واقف کرواتا تھا۔ پھر کیسے اس کے اندر سے اتنا بھیانک ولن نکل آیا۔

اگر یہ وارادات نہ ہوتی تو ایف آئی اے کو یقیناً کبھی نہ خیال آتا کہ ملک کے طول و عرض میں نفسیاتی علاج اور تھراپی کے سیکڑوں اداروں اور معالجوں کی مہارت و اہلیت کا باریک بینی سے جائزہ لینا کتنا ضروری ہے۔ نہ ہی تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور احمد کی ایک آڈیو سامنے آتی ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ اگرچہ ہمیں ملزم کے پرتشدد ذہنی پس منظر سے آگہی تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ ایک بار لندن میں اپنی والدہ کے ساتھ خاصا ترش رویہ اختیار کر چکا ہے جس کے سبب تھانے پولیس کی بھی نوبت آ گئی تھی مگر ہمارے ادارے نے اسے لیول ٹو تک کی تربیتی کاؤنسلنگ میں ڈال دیا اور پھر وہ لیول تھری میں پرموٹ ہو گیایہ ہماری غلطی تھی۔

( واضح رہے کہ نفسیات دانوں کی تربیت سے متعلق سرکردہ امریکی اور برطانوی ادارے صرف ان لوگوں کو کونسلر اور تھیراپسٹ بننے کا اہل قرار دیتے ہیں جنھوں نے تربیتی مینوئل کے کم ازکم پانچ لیول مکمل کیے ہوں۔ ان مغربی اداروں نے پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی نجی اداروں اور ماہرین کو اعزازی رکنیت یا ایکریڈیشن بھی دے رکھا ہے۔ مگر ہم چونکہ طبعاً جگاڑو لوگ ہیں لہٰذا تمام متعلقہ لیول مکمل کیے بغیر بھی خود کو ماہرِ نفسیات و معالجِ کہلوانے اور لاعلم لوگوں کی بے علمی سے فائدہ اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ یعنی ایلوپیھتی کی طرح نفسیاتی تھراپی کے شعبے میں بھی نیم حکیمی زوروں پر ہے)۔

اس بابت آغا خان یونیورسٹی کے سرکردہ نفسیاتی معالج ڈاکٹر مراد موسی اور ایک سرکردہ تھیراپسٹ آشا بیدار اور روزنامہ ڈان کے ایک تحقیقی مضمون کی روشنی میں جو مایوس کن معلومات سامنے آئی ہیں۔ وہ کچھ یوں ہیں۔

پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں سے نصف کو غیر معمولی گرد و پیش کے سبب کوئی نہ کوئی نفسیاتی مسئلہ درپیش ہے مگر بیشتر ازخود مسئلے کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ عوام الناس ماہرینِ نفسیات کو عموماً ’’پاغلاں والے ڈاکٹر ‘‘ سمجھتے ہیں اور بیشتر عام لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’میں کوئی پاغل آں۔ ‘‘

پاکستان میں کوالیفائیڈ ماہرینِ نفسیات و معالجوں کی تعداد لگ بھگ چار سو ہے۔ جب کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار پاکستانی نژاد نفسیاتی ماہرین و ڈاکٹر بیرونِ ملک بالخصوص مغربی دنیا کے آسودہ ماحول میں پریکٹس کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ایلوپیتھی اور دندان سازی کی تعلیم اور پریکٹس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تو کچھ قوانین اور پیشہ ورانہ و اخلاقی ضوابط ہیں مگر نفسیاتی علاج و مشاورت کے شعبے کے لیے صوبائی سطح پر واجبی قانون سازی کے باوجود ایسا کوئی قابلِ عمل ڈھانچہ نہیں جو ان اداروں اور ماہرین کے معیار پر نگاہ رکھ سکے۔ چنانچہ جتنے ادارے اتنی ہی بھانت بھانت کی اسناد و اجازت نامے۔

نجی شعبے کے میڈیکل کالج پابند ہیں کہ وہاں سائکاٹرسٹس کی پیشہ ورانہ اور کلینیکل تعلیم و تربیت کے لیے کوالیفائیڈ اساتذہ، نرسنگ اسٹاف اور نفسیاتی مریضوں کے لیے کم ازکم بارہ بیڈ درکار ہیں۔ مگر نہ صرف نصاب اپ ٹو ڈیٹ نہیں بلکہ بہت سے کالج محض ایک سائکاٹرسٹ کے بل پر فیکلٹی چلا رہے ہیں اور ’’ماہرین‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ’’ ماہرین‘‘ بھی فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی تجربہ کار سینئر پریکٹیشنر کے ساتھ اپرنٹس شپ کا عملی تجربہ حاصل کرنے کے بجائے پہلے دن سے ہی اپنی پریکٹس اور بقراطی شروع کرنے میں آزاد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف اسلام آباد میں تقریباً ڈیڑھ سو کلینیکل سائیکالوجسٹ موجود ہیں۔ مگر ان کی مہارت و قابلیت و ٹریک ریکارڈ جانچنے کا کوئی طے شدہ پیمانہ نہیں۔

حالانکہ آر ایم پی رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر کا مخفف ہے مگر کئی نئے نئے ڈاکٹر گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے کلینک کے بورڈ پر ایم بی بی ایس کے علاوہ آر ایم پی بھی ایسے لکھتے ہیں گویا یہ بھی کوئی اضافی ڈگری ہو۔ بعینہہ بہت سے نفسیاتی پروفیشنلز نہ صرف بیرونِ ملک کے پیشہ ور اداروں کی اعزازی رکنیت کو اپنی اضافی کوالیفکیشن ظاہر کرتے ہیں بلکہ فیڈرل مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی رکنیت کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ اس نام کے سرکاری ادارے کا کوئی وجود نہیں۔

ایک منافع بخش کاروبار بحالی مراکز(ری ہیبلیٹیشن سینٹرز) کے نام پر جاری ہے۔ یہاں نہ صرف منشیات کی لت سے جان چھڑانے کے لیے ڈی ٹاکسیفکیشن کا کام ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی مسائل کی کاؤنسلنگ بھی ہوتی ہے۔ مگر یہاں پر موجود اسٹاف کی تربیت و اہلیت کا معیار کون جانچتا ہے۔ اللہ جانتا ہے۔ ایسے کئی بحالی مراکز خود کو پروفیشنل ثابت کرنے کے لیے اپنے بورڈ پر کسی مستند ماہر کا نام بھی لکھواتے ہیں۔ یہ ماہر صاحب ہفتے میں ایک آدھ بار درشن دیتے ہیں اور اپنے وزٹ کی آٹھ دس ہزار روپے فیس کھری کر کے نکل لیتے ہیں۔

کئی لال بھجکڑ پھر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ بھائی اگر اتنا ہی اندھیر ہے تو مریض یا اس کے لواحقین ایسے معالجوں اور مراکز کا رخ ہی کیوں کرتے ہیں۔ وہ کسی مستند ماہر کا پتہ معلوم کرنے کی زحمت کیوں نہیں کرتے ؟

عرض یہ ہے کہ مستند ماہرین کی فیس اور علاجی اخراجات کا سن کر ہی متوسط طبقے کا دم نکل جاتا ہے۔ اور پھر کون سا ایسا لال بھجکڑ ہے جس نے اپنے ہی مشورے پر عمل کرتے ہوئے زندگی میں کسی ڈاکٹر یا ماہر کے سامنے بیٹھ کر یہ پوچھا ہو کہ ڈاکٹر صاحب میں آپ کے پاس مشورے اور علاج کے لیے آ تو گیا ہوں مگر کیا میں آپ کی اسناد چیک کر لوں اور آپ کے پیشہ ورانہ پس منظر کے بارے میں ایک چھوٹا سا انٹرویو نہ کر لوں۔ برا نہ منائیے گا۔ میں واقعی آپ کا مریض بننا چاہتا ہوں۔ سیریسلی…

یعنی جو کام سرکار کے کرنے کے ہیں اب وہ بھی مریض ہی کرے۔ تو پھر مریض کون ہوا ؟

بشکریہ: ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments