شادی اور خواتین کی معاشی خودمختاری (خط # 9)


محترم ڈاکٹر خالد سہیل!

میں آپ کی مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض سے مختلف ملاقاتوں کے تجربات سے آگاہ فرمایا۔ بد قسمتی سے ایسی نایاب عورتوں کا تذکرہ ہمارے ہاں بہت کم ہے۔ میرے سرکل میں ہی بہت سی نوجوان لڑکیاں ان باہمت اور ذہین خواتین کی کوششوں سے واقف نہیں۔ اردو ادب جہاں بھی تعلیمی نصاب کا حصہ بنتا ہے اس میں خواتین کے کردار کو بہت زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے جس وجہ سے ادب ہمیشہ مرد کے نظریے سے پڑھا جاتا ہے۔ مرد کی سوچ اور جذبات وغیرہ۔ عورتوں کی تحریریں جب اس طرح پڑھی ہی نہیں جائیں گی تو بھلا ہمارے جیسے معاشرے میں ترقی پسند عورتوں کے مسائل کس طرح سے کھل کر اجاگر ہوں گے؟

میں نے اپنی ٹین ایج تک ہمیشہ سے وہی ادب پڑھا جو سب پڑھتے تھے آہستہ آہستہ اپنی دلچسپیوں اور اپنے سوالات کے مطابق کتابوں کا انتخاب خود کرنے لگی۔ ان دنوں میں ہمارے خطے کی خواتین لکھاریوں اور شعراء کی کتابوں کا مطالعہ کر رہی ہوں۔ مجھے خواتین کو پڑھ کر اپنائیت محسوس ہوتی ہے اور ان کی سطروں کے اندر کے معانی بھی اچھی طرح ڈھونڈ پاتی ہوں۔

سر۔ آپ نے اپنے پچھلے خط میں مجھ سے پاکستانی لڑکیوں کی پیشہ ورانہ زندگی کے متعلق دریافت کیا ہے جو کہ واقعی ایک اہم موضوع ہے۔ اکثر نوجوان خواتین کی ٹریننگ ہی اس طرح سے کی گئی ہوتی ہے کہ وہ اس قابل ہو جائیں کہ رشتے کی مارکیٹ میں ان کی بولی اونچی لگ سکے۔ لڑکیاں محنت سے پڑھتی ہیں کہ اچھے اداروں سے اچھی ڈگریاں حاصل کر سکیں۔ ان لڑکیوں میں بڑے خواب دیکھنے والی اور صرف شادی تک کا سوچنے والی دونوں طرح کی لڑکیاں شامل ہیں۔

میری اپنی کلاس میں کل چالیس اسٹوڈنٹس ہیں جن میں سے تیس کے قریب لڑکیاں ہیں اور عموماً لڑکیاں ہی لڑکوں کی نسبت زیادہ ایکٹو ہیں اور گریڈز لانے میں بھی بہتر ہیں۔ اب چونکہ گریجوایشن میں ایک سال رہ گیا ہے تو میرے سرکل میں کچھ لڑکیوں کی منگنیاں اور نکاح وغیرہ بھی ہو رہے ہیں تاکہ ڈگری کے بعد ہی رخصتی ہو سکے۔ میری ایک تقریباً دوست کلاس فیلو کی منگنی دو سیمسٹر پہلے ہو گئی تھی اور آہستہ آہستہ اس نے کلاس کی سرگرمیوں اور پڑھائی کی طرف توجہ کم کر دی۔

پھر اس نے چار سال کی ڈگری کو دو سال میں کنورٹ کرا لیا اور چلتی بنی۔ حالانکہ یہی لڑکی چار سالہ پروگرام میں کسی موٹیویشن سے ہی آئی تھی۔ ایک اور دوست جس کی حال ہی میں منگنی ہوئی وہ بتا رہی تھی کہ اس کے سسرال والے دن گن رہے ہیں کہ کب اس کی ڈگری ختم ہو اور وہ فوراً اس کو لے جائیں۔ میں نے اس دوست سے جاب اور کریئر وغیرہ کے متعلق پوچھا تو کہنے لگی کہ میرے سسرال والوں کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے سو مجھے خود کمانے کی ضرورت نہیں۔

اگر مستقبل میں کبھی ضرورت پڑی تو جاب کر لوں گی۔ ایک ٹھیک ٹھاک پڑھنے والی ذہین لڑکی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر حیرت تھی کہ ہماری خواتین آخر کس جہان میں رہ رہی ہیں؟ ان کو کیوں آئیڈیا نہیں ہو پا رہا کہ وقت کتنی تیزی سے بدل رہا ہے۔ ایسے میں مقابلہ کتنا سخت ہے اور اپنے آپ کی تمام صلاحیتوں کو جام کر دینا اور کسی صندوق میں بند کر کے دور رکھ دینا کہ وقت آنے پر بروئے کار لے آئیں گے شاید ایک بے وقوفی ہے۔ صلاحیتوں کی پریکٹس ساتھ ساتھ جاری رہنی چاہیے۔

بہت سی عورتیں یہ طریقہ اپناتی ہیں کہ ڈگری اور صلاحیتوں کو اچھے سے تالا لگا کر اس کی چابی کہیں رکھ کر بھول جاتی ہیں۔ ڈگری اور ہنر گلتے سڑتے رہتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میڈیکل ہو یا کوئی بھی میدان کچھ تو خواتین اپنی روایتی ٹریننگ کی وجہ سے ایسی سوچ رکھتی ہیں کہ شادی اور اپنی انٹیلیکچوئل گروتھ پر فل اسٹاپ۔ دونوں کو مترادف جانتی ہیں۔ ان کے نزدیک شادی میک اپ کر کے رہنا، خاوند کے لئے کھانا بنانا اور بچے سنبھالنے کا کام ہے۔

مرد کا کام پیسہ کمانا اور عورت کا کام گھرداری ہے۔ کچھ خواتین خود اس راستے کا انتخاب کرتی ہیں جبکہ بہت سے ایسے کیسز بھی ہوتے ہیں جہاں حالات ایسے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ عورت کے لئے اپنے خواب پورے کرنا اور معاشی طور پر خودمختار ہونا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ تمام اہل خانہ کی خدمت اور بچوں کی پیدائش اور دیکھ بھال میں ہی ہر دن گزرتا رہتا ہے۔ جو خواتین جاب کرتی بھی ہیں وہ کسی سوپر نیچرل وجود کی طرح سے اپنی انسانی ضروریات پیچھے رکھ کر ہر وقت کھپتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے کی جگہیں خواتین کے اعتبار سے اتنی فرینڈلی نہیں کہ ایسی عورتوں کا بوجھ کچھ کم ہو سکے۔ بچوں کی پرورش کا سارا ٹھیکہ سرے سے ہی ماں کا ہوتا ہے۔ مردوں کو گھر کے کام کرنے میں شدید شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور اپنے ساتھ ہی صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد دفتر سے آئی بیوی کو حکم دے دے کر گھر کے کام کروا کر بڑائی محسوس کرتے ہیں۔ میں نے جاب کرنے والی کچھ حاملہ خواتین کو گھروں میں اپنی پروفیشنل زندگی اور حساس صحت کے ساتھ جب سب کی خدمت کرتے پایا تو یہ ناگوار تصویر جو میرے ذہن میں بن گئی مجھے ایک اور وجہ کی طرح نظر آئی جو عورتوں کو پروفیشنل زندگی میں برتری لے جانے سے دور رکھتی ہو۔ شاید بہت سی لڑکیاں اس ڈراؤنی تصویر سے خوفزدہ ہو جاتی ہیں اور آگے نہیں بڑھتی۔

سر۔ یہ تو پھر بھی ملازمت کی بات ہے۔ اگر خواتین میں وراثت کے حق، جائیداد اور کاروبار کی بات کی جائے تو حالات اور بھی برے ہیں۔ ملازمت تو ڈگری اور صلاحیت کی بناء پر جینڈر کے مسئلے کے بغیر بھی مل جاتی ہے مگر عورتوں کو جائیداد ملنے کا تصور یہاں پر ناپید ہے۔ جو عورت اپنا حق مانگتی ہے اسے ایموشنل بلیک میلنگ کے ذریعے خاموش کرا دیا جاتا ہے یا پھر اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیے جانے کا ڈراوا دیا جاتا ہے۔ غیرت بیٹیوں سے اور زمینیں بیٹوں سے جوڑی جاتی ہیں۔

سر۔ مغرب میں خواتین کی معاشی خودمختاری کی کیا صورتحال ہے؟ کیا وہاں بھی شادی کا سماجی ادارہ عورتوں کی معاشی خودمختاری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے؟

آپ کی رہنمائی کی طلبگار
مقدس مجید
28 مئی 2021


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments