آمریت والے فروغ نسیم


فروغ نسیم کی شکل میں شریف الدین پیر زادہ آج بھی پاکستان میں موجود ہے، شریف الدین پیر زادہ نے ہر آمر کے پاؤں کو ہاتھ لگایا، ہر آمر کے تلوے چاٹتے رہے، ہر آمر کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ نتیجتاً اب شریف الدین پیر زادہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان کا عزت سے نام لینے والا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ حال ہی میں الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا مان کر کراچی سے اپنی سیاست کا آغاز کرنے والے فروغ نسیم، شریف الدین پیر زادہ کی صف میں کھڑے اول دستے کے کمانڈر ہیں۔

فروغ نسیم قاتل کراچی الطاف حسین کے کیسز میں بطور وکیل بھی پیش ہوتے رہے ہیں، یہ وہی کراچی الطاف حسین ہے جو آج سے چند سال پہلے حکومت اور اداروں کے نزدیک غدار دیے گئے تھے اور ان کی جماعت کے بہت سے کارکن بھتہ خوری و ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہوتے رہے ہیں جن کو بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ نے سزائیں بھی دی ہیں، اگر آپ آج اس حکومتی ڈھانچے پر نگاہ دوڑائیں تو الطاف حسین کے پیروکار اس حکومت میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں، سابقہ دو ڈی جی رینجرز جنرل رضوان اختر اور جنرل بلال اکبر جو اس وقت (سعودی عرب میں سفیر تعینات ہیں ) تو ان کو بلا کر پوچھا جائے کہ ماضی کے غدار آج کیسے محب وطن ہو گئے؟

وہ خالد محمود صدیقی، وہ وسیم اختر جو نواز شریف کے دور میں غدار قرار دیے جاتے تھے وہ اب کیسے محب وطن ہو گئے؟ وہ الطاف حسین کا فروغ نسیم کیسے محب وطن ہو گیا؟ میری رائے میں یہ سب آمریت کے مہرے تھے جو جمہوری ادوار میں غدار ہوتے ہیں اور سیلیکٹڈ ادوار میں محب وطن ہوتے ہیں۔ آج ادارے جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے بغیر حکومت قائم نہیں رہ سکتی اسی لیے ایم کیو ایم کے وہ افراد غدار نہیں ہیں جو الطاف حسین کے دور میں مجرم قرار پاتے تھے۔

آج کل بیرسٹر فروغ نسیم کا بہت چرچا ہے، فروغ نسیم لہجے کے انتہائی دھیمے اور دماغی لحاظ سے انتہائی عیار ہیں، میری رائے میں ان کو پاکستان کا وزیر قانون اسی لیے بنایا گیا ہے تاکہ وکلاء تنظیموں کو نقصان پہنچایا جاسکے اور جمہوری ذہن والے ججز کو بدنام کیا جا سکے۔ اس سے پہلے یہی فروغ نسیم آمر اور پاکستانی عوام کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرنے والے پرویز مشرف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔ خصوصی عدالت سے پرویز مشرف کو پھانسی دینے کا حکم ہو تو یہی فروغ نسیم پرویز مشرف کو بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس کیس کا اختتام پرویز مشرف کی ہار پر ہوا۔

مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثناء اللہ کے اوپر منشیات کا کیس ہو تو فروغ نسیم کی وزارت وٹس ایپ کے ذریعے جج کا تبادلہ کر دیتی ہے اور یہ وہی وٹس ایپ ہے جو جے آئی ٹی بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے، رانا ثناء اللہ کے بعد فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کی توپوں کا رخ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف ہوا، آمریت قوتوں کا سہارا لیتے ہوئے فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اثاثہ جات آمدن سے زائد ہیں لہذا ان کو سپریم جوڈیشل کونسل کی مدد سے سپریم کورٹ سے فارغ کیا جائے۔

کافی عرصہ تک فروغ نسیم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فائز کی چپقلش سپریم کورٹ میں چلتی رہی، دو دفعہ حکومت نے ان کے اوپر اٹیک کیا لیکن فروغ نسیم اور ریفرنس بھیجنے والے صدر ڈاکٹر عارف علوی مکمل طور پر ناکام رہے۔

اب جب جوڈیشل کونسل کا اجلاس جاری تھا تو کورونا وائرس میں مبتلا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی مدد آپ کے تحت اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان بار کونسل اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف تھا کہ سنیارٹی لسٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے جس جج کا حق بنتا ہے وہ سپریم کورٹ میں جج تعینات کیا جائے اور جونئیر جج کو پانچویں نمبر سے اٹھا کر پہلے نمبر پر نہ لایا جائے اس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوگا۔ اسی اجلاس میں فروغ نسیم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جھڑپ بھی ہوئی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فروغ نسیم ڈوگر کورٹ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

لیکن اس موقع پر چیف جسٹس نے پانچ، چار کے فیصلے کے تحت فیصلہ پارلیمانی کمیٹی برائے ججز کو بھیج دیا۔ اس فیصلے کے خلاف پاکستان بار کونسل نے پانچ اگست کو ایک کنونشن منعقد کیا ہے جس میں وکلاء برادری آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی اور اس لائحہ عمل کو جانچنے کے لیے ہر جمہوری پسند شخصیت بڑی بے تابی کے ساتھ وکلاء تنظیموں کے موقف کا انتظار کر رہی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments