آئیں دیکھیں بلوچستان دوسری قسط


قبائل کی سرزمین بلوچستان معدنیات اور لاجواب قدرتی مناظر سے مالا مال صوبہ ہے۔ پچھلی قسط میں زیارت، ہنہ جھیل، جبل نور القرآن، وادی بولان، مولہ چٹوک، استول جزیرہ، ہنگول پارک اور کند ملیر ساحل جیسے اہم سیاحتی مقامات کے بارے میں ذکر شامل تھا، اس قسط میں چند مزید دل فریب مقامات کے بارے میں معلومات شامل ہے۔

پیر غائب آبشار:

بلاشبہ پاکستان میں سیاحتی مقامات کی دنیا میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔ محبتوں کا شہر ضلع بولان بھی قدرتی پانی کی آبشار کی بدولت ایک منفرد نام رکھتا ہے۔ کھجور کی ڈھیر ساری درختوں اور پہاڑوں کے درمیان میں واقع یہ سیاحتی مقام اپنی مثال آپ ہے، اور لوگوں کی سیاحت کا ایک اہم انتخاب ہے۔ پیر غائب کے حوالے سے ایک قصہ مشہور ہے کہ ”پرانے زمانے میں بت مت کے پیروکاروں کے وقت میں ایک بزرگ اپنی بہن“ بی بی نانی ”کے ہمراہ تبلیغ کی غرض سے آئے تھے، جب بادشاہ کو پتہ چلا تو انہوں نے ان پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجی۔

ان کے حملے سے بچنے کے لئے پیر صاحب چٹانوں میں محصور ہو گئے تھے اور اس کے بعد وہاں سے غائب ہو گئے تھے“ ایسے اس مقام کا نام ”پیر غائب“ مشہور ہوا۔ مزید یہ کہا جاتا ہے ”کہ پیر نے پہاڑ پر اپنی چھڑی ماری تو وہاں سے پانی کا یہ آبشار پھوٹ پڑا“ جو کہ آج تک قائم ودائم ہے۔ حکومت بلوچستان نے اب ”پیر غائب“ کی تزین و آرائش بھی کردی ہے جو کہ اس مقام کا مزہ دوبالا کردے گا۔ اس کے علاوہ سڑک کے ساتھ ساتھ ریلوے ٹریک، اور اونٹوں کی موجودگی کا حسین امتزاج بولان کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیتی ہے۔ یہ ریلوے لائن بھی انگریز دور حکومت میں جولائی 1886 میں قائم کی گئی تھی۔ کرد قبیلہ کے نامور شخص ”بولان“ کے نام سے اس ایریا کا نام پڑا تھا۔ بولان کا یہ دروازہ برصغیر کے اہم ترین دروازوں میں سے ایران اور قندھار سے ہندوستان جانے والی قافلوں کا گزرگاہ رہا ہے۔

پری چشمہ، ہرنائی:

ہرنائی ضلع کا یہ سیاحتی مقام پہاڑوں کے درمیان گہرے پانی کے خوبصورت آبشار پر مشتمل ہے۔ یہ مقام ہرنائی شہر سے 3 کلومیٹر اور سڑک کچی ہونے کی وجہ سے تقریباً 30 منٹوں کی دوری پر واقع ہے۔ پورے ملک سے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ اس پر فضا مقام سے لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں۔ اس جگہ کے نام کے حوالے سے مشہور ہے کہ انگریز دور حکمرانی میں لارڈ کی ایک خوبصورت بیوی ہوتی تھی جو کہ عصر کے وقت اس پانی کے چشمہ پر آ کر بیٹھ جاتی تھی اور علاقے کے لوگ ان کی خوبصورتی کی خاطر دیکھنے آتے تھے تب ہی ان کا نام لوگوں نے ”پری“ رکھ دیا اور ایسے ہی اس مقام کا نام ”پری چشمہ“ مشہور ہونے لگا۔

پسنی، گوادر:

صوبہ بلوچستان کا یہ شہر جو کہ محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب میں واقع ہے، جو اپنی شاندار خوبصورتی اور زیر تعمیر سی پیک منصوبہ کی بدولت عالمی سطح پر مشہور و معروف ہے۔

گوادر کا نام دراصل بلوچی زبان کے دو الفاظ ”گوات“ یعنی ”کھلی ہوا اور“ در ”کا مطلب“ دروازہ ”ہے۔ یعنی“ ہوا کا دروازہ ”جو کہ بعد میں“ گواتدر ”سے تبدیل کر گوادر بن گیا ہے۔ گوادر کی 60 کلومیٹر پر محیط طویل ساحلی پٹی کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے کیونکہ جدید ضرورتوں سے آراستہ بندرگاہ کی تکمیل ہو رہی ہے۔ گوادر نہ صرف سیاحت کے لئے موزوں انتخاب ہے بلکہ اب یہ عالمی سطح پر اہمیت کا حامل بندرگاہ ہے جسے بہت جلد سی پیک کے ذریعے پوری دنیا سے جوڑا جائے گا۔

سبکزئی ڈیم، ژوب:

یہ ڈیم مسلم باغ سے تقریباً 194 کلومیٹر کے فاصلہ پر ژوب شہر کے نزدیک واقع ہے، ڈیم تک جاتے ہوئے راستہ پہاڑوں، ندی نالوں اور کھیتوں پر مشتمل ہے جو کہ اس جگہ تک پہنچتے ہوئے سفر کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ یہ ڈیم پروردگار کی بے شمار نعمتوں کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس ڈیم میں موجود پانی تقریباً 95 فٹ گہرا ہے اور یہ ڈیم قریبا 5 کلومیٹر تک پھیلا ہوا وسیع رقبہ پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہ ڈیم پانی کو زرعی اراضی کے لئے اسٹور کرنے کے لئے بنایا گیا تھا مگر اب یہ ایک اہم سیاحتی مقام کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ اس ڈیم میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہے جو کہ محکمہ فشریز کے زیرانتظام ہر سال کئی مالیت کی پیداوار رکھتی ہے۔ اس ڈیم سے نکلتا ہوا پانی دریائے ژوب میں جاکر ملتا ہے جو کہ آگے جاکر دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔

سلیازہ، ژوب :

ژوب شہر سے قریبا 5 کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ انتہائی خوب صورت سیاحتی مقام ”سلیازہ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک کشادہ دریا کی شکل میں سریلی آواز کے ساتھ بہتا یہ پانی قدرت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ پانی کے آس پاس مختلف انواع کے درخت، اور ٹھنڈی ہوائیں منظر کو دلکش بنا دیتی ہے۔ ژوب اور پورے صوبہ کے لوگوں کے ساتھ دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگ بھی سلیازہ کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے اور سطح بہ سطح بہتے پانی کی یہ لہریں ذہن پر نا ختم ہونے والے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوستان، ویالہ کلی، بابڑ جنگل، عثمانزئی جنگل، وغیرہ ژوب کے مشہور سیاحتی مقامات ہیں۔

پیر چھتہ، جھل مگسی:

اس ضلع کی شناخت یہاں سالوں سال سے منعقد ہونے والی ’ڈیزرٹ ریلی‘ ہے جبکہ اس کے علاوہ کھجوروں سے ڈھکا ہوا نخلستان بھی اس کی پہچان میں حصہ ڈالتا ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلہ میں واقع چشمہ صدیوں سے بہہ رہا ہے اور اپنی خوبصورت 2 فٹ مچھلیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ کوئٹہ شہر سے 272 کلومیٹر اور گنداواہ سے قریبا 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ مقام سڑک پکی ہونے کی بدولت سندھ اور بلوچستان سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح اس جگہ کی سیر کرتے ہیں۔

سیاح ٹھنڈے پانی کے چشمہ میں نہاتے ہیں اور کھجوروں کے سائے میں آرام کرتے ہیں۔ جھل مگسی میں ہندوؤں کا ”کوٹھرڑہ کا قدیم بازار“ اور ان کے گھر جو کہ اب منہدم ہوچکے ہیں بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس چشمہ کے آس پاس اب حکومت نے سہولت کے لئے واکنگ ٹریکس بھی بنائے ہوئے ہیں جن پر چل کر چشمہ کی خوب سیر کی جا سکتی ہے۔ پیر چھتل شاہ کا مزار بھی موجود ہے جہاں عقیدت مند آتے ہیں اور ایصال ثواب کے لئے دعا مانگتے ہیں۔

مزار کے نیچے حصہ سے پانی بہتا ہے اور گھنے درخت پانی کے آس پاس موجود ہیں، فیملیز کے لیے مخصوص جگہ موجود ہیں اور سایہ کے لئے شیلٹر والی جگہیں بھی بنائی گئی ہے۔ پانی میں موجود مچھلیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جو کوئی ان کو پکڑ کر کھاتا ہے یہ مچھلی ان کی جسم سے زندہ نکل جاتی ہیں یا نقصان کا سبب بنتا ہے اسی وجہ سے لوگ ان کو ہاتھ نہیں لگاتے اور ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جھل مگسی میں قدیم زمانے میں بیل گاڑی کی سواری اب بھی موجود ہے

نوشکی کا ریگستان :
نوشکی کو ’سٹی آف گولڈن ڈیزرٹ‘ کہا جاتا ہے کیونکہ حد نگاہ سنہری رنگ سے مامور ریگستان اور نخلستان کی سرزمین نوشکی کی خوبصورتی پورے پاکستان میں نہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ قدرت کے خوبصورت مناظر دیکھنا چاہتے ہیں تو نوشکی ایک بار ضرور جائیں۔ کوئٹہ سے نوشکی کا فاصلہ 124 کلومیٹر پر محیط ہے۔ راستہ میں سڑک کے ساتھ ساتھ ریلوے ٹریک بھی موجود ہے، ’شیخ واصل‘ ریلوے اسٹیشن 1905 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ ایران کے شہر زاہدان تک پھیلا ہوا ہے، اگرچہ اب مسافر ٹرین نہیں جاتی مگر ہفتہ وار زاہدان کی طرف ایک مال برادر ٹرین اب بھی اس ٹریک پر جاتی ہے۔

شیر جان آغا کا مزار کوئٹہ تفتان روڈ کے دائیں جانب پہاڑوں کے درمیان ایک اونچی جگہ موجود ہے۔ سب سے بلند چڑھائی کو سلطان چڑھائی کہا جاتا ہے۔ نوشکی 2900 فٹ سمندری بلندی پر واقع ہے، نوشکی کے یہ سنہری ریگستان افغانستان کے صوبہ ہلمند تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تربوز کے بیج یہاں کی مشہور سوغات ہے۔ ریت کے یہ ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی ہوتے رہتے ہیں۔

خوشاب کاریز :

ضلع پشین کے تحصیل کاریزات کا ایک خوب صورت گاؤں ’خوشاب‘ زراعت بالخصوص سیب کی فصل کی پیداوار میں اپنا نام رکھتا ہے مگر اس کے علاوہ یہاں کا قدرتی کاریز بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ پورے صوبے سے سیاح تفریح کی غرض سے خوشاب کاریز دیکھنے آتے ہیں۔

بلوچستان کو ایک زمانے میں ’کاریزوں کا دیس‘ بھی کہا جاتا تھا۔ کاریز قدرتی پانی کا ایک ایسا چشمہ ہوتا ہے جو کہ بلند مقام سے مختلف کنویں کھود کر ان چشموں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا لیا جاتا ہے اور نالوں کے ذریعے کاشت کی گئی فصلوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ آب پاشی کا یہ طریقہ صدیوں سے افغانستان، ایران اور بلوچستان میں رائج ہے۔

بلوچستان حکومت اور سیاحت کے اقدامات:

حکومت بلوچستان نے بھی سیاحت کے حوالے سے باقاعدہ ایک ڈیپارٹمنٹ ’ڈائریکٹوریٹ آف ٹورزم ”کے نام سے فنکشنل کر دیا ہے، جس کا بنیادی مقصد صوبہ میں سیاحت کے فروغ کے لئے کام کرنا ہے۔ اس شعبہ نے اب تک کئی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کے مقابلہ جات منعقد کروائے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے بلوچستان کی خوب صورتی کو سامنے لایا جاسکے، کیونکہ ڈیجیٹل ذرائع کا سیاحت کے فروغ میں ایک اہم کردار ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں اسلام آباد میں حکومت بلوچستان کی جانب سے کلچرل فیسٹول لگایا گیا تھا جس کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ بلوچستان کے حسین مقامات بھی دیکھنے اور سیاحت کے لئے موزوں ہیں۔

گزشتہ مہینے پاکستان ریلوے نے بلوچستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے کولپور ریلوے اسٹیشن سے بوستان ریلوے جنکشن تک ٹورزم ٹرین شروع کر دیا ہے جو فی الحال صرف اتوار کے دن سیاحوں کو لے چل رہا ہے، بہت جلد اس کو ہفتہ کے پورے ایام میں چلانے کا پروگرام ہے۔ بلاشبہ بلوچستان اب ایک پر امن صوبہ ہے اور سیاحت کے اقدامات مزید بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ سیاحوں کو بلوچستان کا رخ بھی ضرور کرنا چاہیے اور بلوچستان کی خوب صورتی سے ضرور لطف اندوز ہونا چاہیے۔

ان تمام دل فریب سیاحتی مقامات کے بارے میں پڑھ کر آپ سب کب اپنا بیگ تیار کر کے بلوچستان آرہے ہیں کیونکہ بلوچستان صرف سیاحتی مقامات کی بدولت ہی مشہور نہیں بلکہ یہاں کے روایتی کھانے بھی اپنی مثال آپ ہیں چاہے وہ ”سجی“ ہو، یا پھر سردیوں میں تیار کردہ ”لاندی“ ہو۔ سب سے بڑھ کر اس وسیع صوبہ کے باسیوں کے کشادہ دلوں سے پرجوش مہمان نوازی بھی آپ کی منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments