طالبان سفارت کاری کی جنگ جیت رہے ہیں


اگر میں کہہ دوں کہ طالبان کے پاس پاکستان سے بہتر تعلقات عامہ، سفارتکاری اور مذاکرات کے ماہرین موجود ہیں، تو اسے مبالغہ نہ سمجھیں۔ ثبوت یہ ہے کہ افغانستان میں قبضے اور حملے طالبان کرتے ہیں اور بدنام پاکستان ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی وجوہات اور بھی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ پاکستان کی بساند زدہ خارجہ پالیسی، ہر وقت اور ہر موضوع پر بے دریغ بولنے والے بھانت بھانت کے وزیر، چبا چبا کر لوکل سیاست کے انداز میں طعنے دینے والا وزیر خارجہ، معذور فارن آفس اور افغانستان میں موجود گونگا پاکستانی سفیر ہے۔

ورنہ جس ملک کے لاکھوں مہاجرین کسی ملک میں چار عشروں سے رہائش پذیر ہوں جن ممالک کے مشترکہ سرحدات پر روزانہ بیس پچیس ہزار لوگوں کی آمد و رفت ہو رہی ہو ان ممالک کے درمیان جان بوجھ کر تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی جائے تو بھی تعلقات خراب نہیں ہو سکتے اور ایسی بہترین صورت حال میں بھی ایسے بدترین تعلقات ہوں تو پھر سفارتی نا اہلی اور کیا ہوتی ہے؟

طالبان افغانستان پر قابض ہوئے یا نکالے گئے یہ اتنا اہم نہیں اہم یہ ہے کہ طالبان برسر زمین جنگ جیت رہے ہیں یا نہیں لیکن وہ بین الاقوامی سفارتکاری کی جنگ جیت رہے ہیں۔

ماضی میں طالبان مدرسوں کے نیم خواندہ سٹوڈنٹس، انپڑھ اور بیروزگار دیہاتی، طاقت، بندوق اور اہمیت کے بھوکے موقع پرست بے نام لوگ تھے جو ملک چلانا جانتے تھے نہ انتظامی امور سے واقف تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر انجینئر اور استاد تک ملک سے نکالے تاکہ ان کی جہالت ظاہر نہ ہو۔ امدادی ایجنسیاں اور خیراتی ادارے ہراساں کیے گئے، کابل جلال آباد اور قندھار کے انتظامی دفاتر میں موجود کمپیوٹرز کو ٹی وی سمجھ کر توڑا گیا، اس لئے بمشکل سانس لیتا ہوا ملکی نظام وینٹیلیٹر پر چلا گیا۔ کابل اور جلال آباد کو پشاور سے لوکل کوڈ سے فون کیا جانے لگا یہاں تک کہ کابل اور جلال آباد تک پشاور کے نان بائیوں کی پکی ہوئی روٹیاں ڈالے بھر بھر کر جانے لگے۔

پرانے طالبان کا انحصار مکمل طور پر پاکستان پر تھا۔ ایرانی سفیر کو ہیلی کاپٹر سے گرا کر اس کی قبر ہر وقت اس ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز کے درمیان میں بنی پڑی رہی۔ تاجکستان تک اسلامی انقلاب ایکسپورٹ کی گئی۔ بین الاقوامی ایجنڈے والے اسلامی شدت پسندوں کا ساتھ، انسانی، اقلیتی، خواتین اور اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ حقوق کی پامالی پر مغرب اور امریکہ پہلے سے مخالف تھا تو بدھ مت کے پیروکار جو مشرق بعید تک کے ممالک برما تھائی لینڈ جاپان جنوبی اور شمالی کوریا، انڈونیشیا جیسے غیر جانبدار ممالک جو کسی طرح کسی بھی وقت طالبان کے کام آسکتے تھے، ان کو بدھا کا مجسمہ بارود کی نذر کر کے مفت میں دشمن بنایا۔ یوں طالبان اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مکمل تنہا کر دیے گئے۔ لگتا نہیں تھا کہ طالبان افغانستان پر حکومت کرنے آئے تھے بلکہ یوں لگتا تھا کہ وہ افغانستان کو قبضہ کرنے لوٹنے قتل و غارتگری کرنے اور تباہ کرنے آئے تھے۔

لیکن آج کے طالبان وہ طالبان نہیں ہیں، ایسی یقین دہانیاں طالبان بھی کراتے ہیں اور نظر بھی آتا ہے۔ اگر مزاحیہ ٹک ٹاکر خاشہ زوان کا قتل اور کسی شہر میں لٹکائے جانے والی دو لاشوں کو نچلے درجے کے طاقت کے بھوکے طالبان کی اضطراری اور انفرادی حرکات مان لی جائیں تو جدید طالبان بہت کچھ سیکھ گئے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔

قطر میں دفتر کھول کر طالبان نے پاکستان پر اپنا انحصار اتنا کم کر دیا ہے کہ بین الاقوامی دباؤ اور ذاتی تحفظات کی بنا پر جب پاکستان نے کابل پر طالبان کے قبضہ کرنے کی مخالفت کی تو طالبان نے ٹی ٹی پی کو ساتھ بٹھا کر پاکستان کے حدود کا تعین کیا۔ اس سے پہلے امریکہ کو اڈے دینے کی خبر پر پاکستان کو باقاعدہ کھلم کھلا اخباری بیان کے ذریعے دھمکی دی۔ طالبان کا انحصار اب پاکستان پر اتنا نہیں جتنی خوشیاں پاکستان کی سرکار اور ماضی میں مقید ایک خاص طبقہ جس انداز میں مناتا ہے۔

طالبان کے ذہن میں ان کا سابقہ سفیر ملا ضعیف، متعین پاکستان سے سلوک اسی طرح ایستادہ ہے جس طرح لاہور میں مینار پاکستان۔ اس لئے ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طالبان کے ساتھ مشرف دور میں روا رکھا گیا پاکستان کا سلوک، پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات کو آسان بننے نہیں دے رہا ہے۔ یہ تعلقات سہولت کاری کی شادی (میرج آف کنویننس) کی طرح ہیں۔ روس مدت سے شمالی افغانستان کے دیہات میں طالبان اور شہروں میں کابل حکومت کی مدد کر کے دونوں کو خوش رکھ رہا ہے۔

ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات اس وقت سے قائم ہیں جب طالبان کو افغانستان اور پاکستان میں کوئی درخت بھی چھاؤں دینے کو تیار نہیں تھا۔ اسی طرح انڈیا نے بھی طالبان کے اندر موجود قوم پرست ذہن رکھنے والوں کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے ہیں۔ چین کو اس کی افغان انوسٹمنٹ، ایغور مسلمانوں کی صورتحال، چین کے اندر عدم مداخلت اور افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانیاں کرا کر طالبان نے حال ہی میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی مذہبی (اسلامی) سیاست سے دستبرداری اور غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف لڑنے کے معاہدے کے بعد امریکی فوجی انخلا کا راستہ ہموار ہوا تو امریکہ نے بھی طالبان کو نیم تسلیم شدہ حیثیت دے دی۔

پہلی دفعہ دنیا کو اپنی اہمیت افادیت اور ذمہ دارانہ حیثیت کا احساس دلا کر طالبان نے اپنے لئے بین الاقوامی برادری میں شرکت اور پسندیدگی اور قبولیت کا مقام پیدا کیا ہے۔ چونکہ پچھلی دفعہ اپنی سیاسی غلطیوں کی بنیاد پر وہ بین الاقوامی سیاست میں اچھوت بنائے گئے تھے اس لئے اس دفعہ انہوں نے اپنے سارے انڈے پاکستان کی ٹوکری میں رکھنے کی بجائے زیادہ سیاسی بلوغت ذمہ داری اور دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔

بہتر ہوگا کہ جس طرح روس امریکہ چین ایران کے تحفظات دور کیے ، طالبان افغانستان میں موجود قوم پرستوں کے تحفظات بھی اسی طرح دور کر دیں تاکہ کابل کو جانے والا راستہ خون آلود بوٹوں سمیت طے کرنے کی بجائے گلاب کی پتیوں اور عوام کی تالیوں میں، کابل فتح کرنے والے حملہ آوروں کی حیثیت سے نہیں بلکہ امریکہ سے آزادی دلانے والے حریت پسندوں کی حیثیت سے طے کریں۔ کیونکہ طالبان کا اصل مقابلہ افغان فوج یا حکومت سے نہیں بلکہ ڈرے ہوئے جنگ آمادہ عوام سے ہے۔ طالبان جانتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ نہیں ورنہ وہ بندوق کی بجائے ووٹ کے ذریعے افغانستان پر حکومت کرنے کی کوشش کرتے، جس کی ان کو پیش کی گئی ہے۔

طالبان نے جس طرح سیاسی سفارتی اور مذاکراتی کامیابیاں حاصل کر کے اپنی اہمیت اور افادیت ثابت کی ہے کابل حکومت نے ابھی یہ سب کرنا ہے، اگر وہ یہ جنگ جیتنا چاہتی ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments