ویکسینیشن کراؤ ورنہ…


بات رویوں اور سلوک کی بھی ہوتی ہے۔ صبر، تحمل، بردباری اور گفتگو میں مٹھاس ہمارا یعنی مسلمانوں کا شیوہ ہوا کرتا تھا لیکن ہم ان سب کو یکسر بھلا چکے ہیں اور ہر کام ڈرا کر، خوفزدہ کر کے اور سزاؤں پر سزا دے کر نکالنا چاہتے ہیں۔ مسائل کو حل کی جانب لے جانے کی بجائے ان کو الجھا کر رکھ دینے کے عادی ہو گئے ہیں جبکہ وہ اقوام جن سے ہم اس بنیاد پر نفرت کرتے ہیں کہ وہ ”ہمارے“ جیسے مسلمان نہیں، غیر مسلم ہیں، یہودی ہیں، عیسائی ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ان سب اقوام نے ان ساری صفات کو اپنا شعار بنا لیا ہے جو ہماری تعلیم و تربیت کا خاصہ تھیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کووڈ 19 پوری دنیا پر ایک عذاب کی شکل میں ٹوٹ پڑا ہے لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ دنیا کے وہ تمام ممالک جو ہمارے لئے قابل نفریں ہیں، وہاں نہ صرف اس کا نہایت تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا جا رہا بلکہ رات دن وہ اس تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں کہ اس آفت ناگہانی سے کس طرح نمٹا جائے کہ اس سے نجات بھی مل جائے اور ان کے عوام کو کسی قسم کی بڑی پریشانی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔

بے شک دنیا کے تقریباً سارے ممالک میں اس کا سب سے بڑا حل مکمل لاک ڈاؤن ہی قرار پایا ہے لیکن جن جن ممالک نے لاک ڈاؤن کا طریقہ کار اپنایا بھی ہے تو بھی اپنے ایک ایک شہری کو گھر بیٹھے ہر قسم کی سہولیات کو پہنچانا اپنا فرض اولین قرار دیا ہے لیکن اس کے بر عکس ایک ایسا ملک جس کے ساتھ لفظ ”اسلامی“ بھی جڑا ہوا ہو اور جس کو معرض وجود میں لانے کا مقصد ہی نفاذ ”اسلام“ رہا ہو، وہاں لاک ڈاؤن کو تو نافذ کرنا وقت کی ضرورت اور تقاضا قرار دیا جاتا ہو لیکن جن لوگوں کی زندگی کا انحصار روز کما کر روز کھانے پر ہو، اس جانب ذرہ برابر بھی توجہ نہ ہونا، نہ صرف حیران کن ہے بلکہ نہایت دکھ اور درد کی بات ہے۔

پورے ملک کے عوام ایک جانب تو اس آفت ناگہانی کے ہاتھوں پریشان ہیں تو دوسری جانب حکومت کا مسلسل اس بات پر دباؤ ہے کہ ملک کے تمام افراد ویکسینیشن کا عمل مکمل کروائیں۔ بے شک ویکسینیشن ہر فرد کے لئے لازم و ملزوم ہو چکی ہے اور جن افراد نے ابھی تک اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا، ان پر لازمی ہے کہ وہ اس عمل کو جتنی جلد ممکن ہو مکمل کریں تاکہ نہ صرف ان کو اس بلا سے تحفظ حاصل ہو سکے بلکہ وہ کسی اور کے لئے لئے بھی آزمائش نہ بن سکیں۔

ویکسینیشن کے اس عمل کو جلد سے جلد مکمل کرانے کے لئے حکومت کی جانب سے مسلسل یہ وارننگ جاری کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی فرد ویکسینیشن کے عمل سے نہیں گزرے گا تو اس کے خلاف کئی انداز سے ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ ملازم ہے تو اس کی تنخواہ روکی جا سکتی ہے، کاروباری ہے تو اس کی کاروباری مراکز سے لین دین پر قدغن لگائی جا سکتی ہے، ہنر مند ہے تو اس کی شاپ پر اس کا اور اس کے ساتھ اس کے اسٹاف کا ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ طلب کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بنا سختی لوگ بات مانتے بھی نہیں لیکن جب ایسی صورت حال ہو کہ لوگوں کی تنخواہیں بند کی جا رہی ہوں، کاروبار کرنا بنا ویکسینیشن مشکل ہو جائے، یہاں تک کہ گھر سے باہر نکلنے کے لئے بھی ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ ساتھ رکھنا ضروری قرار دیدیا جائے تو ہر فرد لازماً ان سینٹروں کی جانب دوڑ لگائے گا جہاں ویکسین لگائے جانے کی سہولیات موجود ہوں گی ۔ یہاں جو نقطہ غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ جب ملک کے 22 کروڑ کے 22 کروڑ عوام ویکسینیشن سینٹروں کی جانب دوڑ لگانے کے لئے گھروں سے نکلیں گے تو کیا ملک کے تمام سینٹروں پر ان سے نمٹنے کے خاطر خواہ انتظامات موجود ہوں گے ؟

مسلسل ڈراوے اور دھمکیوں کے نتیجے میں لوگوں کے بڑے بڑے جلوسوں کا رخ ویکسینیشن سینٹروں کی جانب ہونے کی وجہ سے ایک عجب ہو ہا کا عالم مچا ہوا ہے جس کی سب سے بڑی مثال کراچی کے ایکسپو سینٹر پر بپھرے ہوئے عوام کا وہ رد عمل ہے جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ایکسپو سینٹر کا صدر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

ویکسینیشن کا عمل لازمی ہی سہی اور اسے نہ لگوانے والوں کے خلاف بے شک کاروائی ہونا بھی درست سہی لیکن کیا پاکستان کی حکومت نے لوگوں کی آمد کے مطابق اسے لگانے کے انتظامات بھی کر رکھے ہیں یا صرف حکومتی دھمکیوں سے ہی سب کی ویکسینیشن پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گی۔

ایک جانب ہم مسلمانوں کے رویوں کا یہ عالم کہ لوگوں کی پریشانیوں میں کمی لانے کی بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ در اضافہ کیے جائیں اور دوسری جانب پاکستان میں سب سے زیادہ برا کہلائے جانے والے امریکا کا یہ عالم کہ اس نے افراد میں ویکسینیشن کی رغبت دلانے کے لئے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی اپنی ویکسینیشن بھی کرائیں اور 100 ڈالر بھی تحفے میں حاصل کریں اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کو ”شکریہ“ کہنے کا موقع بھی فراہم کریں۔

بے شک پاکستان ایک غریب ملک ہے وہ اس قسم کی کسی پیشکش کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اتنا تو کر سکتا ہے کہ ویکسینیشن سینٹروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کر کے، پولیو کی طرح گشتی ٹیمیں تشکیل دے، ہر شاپنگ سینٹر، ریلوے اسٹیشن، ائر پورٹ اور بس سٹاپ پر ٹیمیں بٹھائے تاکہ عوام کا ہجوم صرف ویکسینیشن مراکز پر ہی جانے پر مجبور نہ ہو بلکہ ان کے لئے ہر جگہ سینٹرز موجود ہو۔ ان سہولتوں کی فراہمی کے بعد اگر افراد پھر بھی کوتاہی کریں تو جو سزا بھی مقرر کی جائے اسے ناجائز نہیں کہا جا سکتا بصورت دیگر ظلم تو ظلم ہی ہوتا ہے خواہ اس کی کوئی بھی صورت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments