یادوں کے دریچے
بچپن کتنا حسین اور خوبصورت ہوتا ہے۔ پیار، خلوص، خوشیاں، مٹھاس، نٹ کھٹ، لڑائیاں، منانا، مذاق، کھلونے، غبارے، لطیفے، قلبی لگاؤ، رنگینیوں اور قہقہوں کا مجموعہ۔ زندگی میں صرف کھانا پینا، سونا اور کھیلنا ہی شامل تھا۔ کھیلوں میں ہم سٹاپو، اونچ نیچ، اونچ نیچ کا پہاڑ، میک اپ کرنا، ٹیچر بننا، ہاتھی کی سونڈ، جن جن، پولیس چور، اینٹوں کے گھر بنانا، چھپن چھپائی، بارش میں دیر تک بھیگتے رہنا اور کاغذی کشتیاں چلانا، غبارے اڑانا، پتنگیں بنانا، برف پانی، بادشاہ بادشاہ کا وزیر کون، ہاتھوں پر رکشے رکشے والا بھائی کھیلنا اور نہ جانے ہم کیا کچھ کھیلا کرتے تھے۔
بڑی ہیل کے جوتے پہن کر پورے گھر میں ٹک ٹک کرنا، ماما کا دوپٹہ لے کر ساڑھی پہننا اور اکثر الٹے جوتے پہن کر بھاگتے ہوئے گر جانا اور پھر مار بھی پڑنا۔ ماما کی عینک، پرس، دوپٹہ اور جوتے پہنے سوٹی اور رجسٹر ہاتھ میں پکڑے ٹیچر بن جایا کرتی۔ پھر کاپی پر بچوں کے نام لکھ کر roll call کرتی، اپنا لکھا ہوا کام بچوں کا سمجھ کر چیک کرتی، کبھی شاباش دیتی تو کبھی غلطیاں نکال کر ڈانٹتی تھی۔ ڈاکٹر کے کھیل کے لیے ہم کزنز میں سے دو ڈاکٹر، دو نرس اور باقی مریض بن جایا کرتے۔
بیمار کو کاغذ کی پڑیوں میں نمک اور چینی ڈال کر دوائی دی جاتی۔ اپنے ٹیڈی بیئر کو ٹرالی میں ڈالتے جسے ہم سٹریچر تصور کر لیا کرتے اور پردے کے پیچھے لے جا کر انجیکشن (ٹیکہ) لگایا کرتے جس کے لیے انک پین کو پانی سے بھر کر استعمال کیا جاتا پھر نرس پڑیاں پکڑاتی اور ڈاکٹر نسخہ تجویز کرتے۔ اس طرح ہمارا ڈاکٹری کا کھیل اپنے انجام کو پہنچتا۔ عید کے موقع پر اپنی دوستوں کو عید کارڈز بھجواتی جس میں سرفہرست
ڈبہ میں ڈبہ، ڈبے میں کیک
میری دوست لاکھوں میں ایک
لکھنا تو جیسے فرض اولین ہوتا۔ ایک دوسرے کو تحائف میں کلرز، مارکرز، کلرنگ بکس، چوڑیاں اور ٹوپس ( دیے جاتے۔ چھپن چھپائی کھیلتے ہوئے ایسے کونوں کھدروں میں چھپ جایا کرتے کہ پکڑنے والے کے لیے ڈھونڈنا محال ہو جاتا اور جب اپنی باری آتی تو گنتی کے دوران آنکھوں پر ہاتھ رکھے کن اکھیوں سے جھانکی مارتے رہتے کہ پتہ تو چلے کون کس طرف جا کر چھپ رہا ہے۔ پھر بار بار آواز دیتے رہتے ”آ جاؤں آ جاؤں“ اور یوں آواز کے تعاقب میں چھپنے والے کو جا لیتے۔
ہم ماما اور اپنے تمام کپڑے اور جوتے ایک ترتیب میں رکھتے اور پھر ایک دوسرے کی sale میں شاپنگ کے لیے جاتے۔ جی باجی کس طرح کے کپڑے چاہیے۔ باجی یہ چیک کیجیئے نیا سٹائل ہے۔ پوری مارکیٹ میں آپ کو ایسی چیز نہیں ملنے والی۔ پھر ریٹ لگا کر سودے بازی کی جاتی۔ دکاندار مہنگائی کا رونا دھوتا رہتا اور پھر لے دے کے معاملہ طے کیا جاتا تھا۔ ہم ساتھ والے گھر میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ ٹیچر کی بیٹی کو “چکی” کاٹنے کی عادت تھی۔
گلی میں کھیلتے ہوئے جیسے ہی اس پر نظر پڑتی ہم بھاگ جایا کرتے کہ چک آ گیا ہے۔ دکان سے لے کر بہت گندی لیکن سوادی اور مزیدار چیزیں کھایا کرتے تھے۔ پاپڑ جو کہ منہ میں ڈالتے ہی گھل جایا کرتے، انڈا جیلی، پیزا جیلی، املی، چلی ملی، شاہی میوہ، دالیں اور ٹافیاں جو کہ دانتوں میں پھنس جایا کرتی تھیں۔ گھر میں ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں جا کر مہمان بن جایا کرتے اور مہمان نوازی مٹی اور سٹیل کے برتنوں میں نمکو، بنٹیوں اور بسکٹ سے کی جاتی۔
ایک پیکٹ میں چھوٹے چھوٹے رنگین بالز ملا کرتے تھے جنہیں ہم پانی میں ڈال کر بڑا کرتے۔ عید کے موقع پر گلی میں ٹھپا مہندی لگانے ایک آنٹی آیا کرتی تھیں اور دس روپے میں ہی ہم ہاتھ کے چاروں طرف مہندی لگوا لیتے تھے۔ ربیع الاول کے موقع پر پہاڑیاں دیکھنے جاتے۔ تو وہاں ہم پہاڑیوں کے نگران بچے جو نقلی داڑھی اور بال لگائے بیٹھے ہوتے، اتار کر بھاگ جایا کرتے۔ رات کو چھت پر راہ چلتے لوگوں پر لیزر لائٹ مارتے۔
جب ہم سب کزنز کی پلٹون نانکے اکٹھے ہوتی تو نانا ابو ہمیں سیر کروانے پارک لے جایا کرتے اور راستے سے کھانے کی چیزیں لے دیا کرتے۔ پارک میں پینگیں اور سلائیڈز لیا کرتے، تتلیوں کے پیچھے بھاگتے، وہاں سے واپس جانے کا دل نہ کرتا تو کہتے ابو بس ایک آخری باری جھولے کی رہ گئی ہے وہ لینے دیں جو کہ آدھا گھنٹہ مزید لمبا ہو جاتا۔ واپسی پر مالی سے چھپتے چھپاتے پھول توڑ لیتے اور پھر گھر کی راہ لیتے۔
الغرض، بچپن کی اتنی یادیں ہیں کہ ہر ایک کا یہاں ذکر بیان سے باہر ہے۔ بڑے ہو کر اکثر لوگوں کو یہ بات دہراتے سنا ہے کہ کاش ہم بچے ہی ہوتے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی حرکتیں زندگی سے بھرپور تھیں۔ اس دور کا کوئی مول نہیں ہو سکتا چلو آؤ نہ پھر سے یادوں کے سنگ اس دور میں چلیں۔ اب رشتوں میں فاصلہ آ چکا ہے۔ وہ رونقیں تو جیسے ختم سی ہو گئی ہیں۔ تعلیم، نوکری، شادیاں، بچے اور گھریلو مصروفیات کے باعث کسی کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے کا، پھر سے اکٹھے ہونے کا وقت ہی نہیں۔
کوئی ناراض ہو جائے تو انا آڑے آ جاتی ہے کوئی کسی کو مناتا ہی نہیں۔ بچپن میں تحائف کی قیمت بہت کم تھی لیکن پھر بھی مہنگے تھے کیونکہ اپنائیت اور خلوص دل سے دیے اور لیے جاتے تھے۔ آج صرف تحفوں کی قیمت دیکھی جاتی ہے۔ موبائل کی دنیا نے رشتوں کو پرے چھوڑ دیا ہے۔ ایک گھر میں موجود ہو کر بھی ایک دوسرے سے بیگانے ہیں اور کبھی اکٹھے مل بیٹھنے کا موقع مل بھی جائے تو یہ قیمتی وقت بھی ہر ہاتھ میں موجود موبائل کی ٹک ٹک کی نذر ہو جاتا ہے۔ آج بے تکلفی میں تکلف نے جگہ لے لی ہے۔ بچپن میں گھر فاصلے پر تھے لیکن دل قریب تھے آج گھروں کے ساتھ دلوں میں بھی فاصلہ آ گیا ہے۔ بچپن پر لکھی گئی اس تحریر کے اختتام پر مشہور و معروف گانے کی چند سطریں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گی۔
” میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی! ”
- اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے - 13/09/2021
- یادوں کے دریچے - 03/08/2021
- معصومیت سے شعور تک کا سفر - 02/07/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).