آج کل بہت لبرلز آ گئے ہیں!



ابھی حالیہ دنوں میں سپر ماڈل صدف کنول نے اپنے اداکار شوہر کے ہمراہ ایک ٹی وی شو میں شرکت کی اور مختلف موضوعات پر ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا شرف بخشا جس کی وجہ سے وہ ٹویٹر پر بھی ٹرینڈ میں ہیں۔

جب ان سے خواتین کے مظلوم ہونے پر سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا: ”عورت مظلوم بالکل بھی نہیں ہے، میں تو اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہوں اور آپ (اینکر) بھی مضبوط ہوں گی۔ عورت بالکل بھی بیچاری نہیں ہے۔“ جبکہ ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ پاکستان خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے، آ نر کلنگ کی بات کریں تو دنیا کے 20 فیصد واقعات ہمارے ہاں ہوتے ہیں، گھریلو تشدد کے واقعات کے لیے گزشتہ چند روز کے ہیش ٹیگز ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں اور صنفی مساوات میں دوسرا بد ترین ملک ہے۔

جب آپ نے زمینی حقائق نہ دیکھے اور نہ ہی پڑھے تو آپ کیسے کمنٹ کر سکتے ہیں، آپ ایک ایسے ملک میں سپر ماڈل ہیں جہاں خواتین کی بڑی تعداد گھر سے باہر نہ نکلنے کی اجازت کے سبب اپنی تعلیم مڈل یا میٹرک سے آ گے جاری نہیں رکھ سکتی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر آپ نے غربت نہیں دیکھی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں غربت موجود ہی نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ: ”ہمارا کلچر کیا ہے، ہمارا میاں ہے، میں نے شادی کی ہے، میں نے اس کے جوتے اٹھانے ہیں، میں اس کے کپڑے بھی استری کروں گی، مجھے پتہ ہونا چاہیے کہ اس کی کون سی چیز کہاں پڑی ہے، کیونکہ میں اس کی بیوی ہوں، میں ایک عورت ہوں۔ شیری کو میرا نہیں پتا ہونا چاہیے لیکن مجھے اس کا زیادہ پتا ہونا چاہیے۔“ یعنی ان کے نزدیک کلچر سے مراد شوہر اور دن رات اسی کی خدمت زندگی کا بنیادی مقصد ہے جبکہ کیرئیر اور باقی چیزوں کا وجود ہی نہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہوا کہ اگر آپ ایک سلیبرٹی ہیں تو لازمی نہیں کہ آپ انٹلیکچوئل بھی ہوں گے، شاید ان سے زیادہ شو ہوسٹ کی غلطی ہے کہ ان سے ایسے مشکل موضوع پر سوال کر ڈالے۔

ان کا طنز یہ کہنا تھا کہ ”آج کل بہت لبرلز آ گئے ہیں“، جیسا کہ لبرل ہونا کوئی گالی ہے اور لبرلز بے راہ روی کا شکار، اخلاقیات سے عاری کوئی الگ مخلوق ہیں جنہوں نے پورے ملک میں فحاشی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ جبکہ ان کے شوہر نے ایک ٹویٹ بھی کی جس میں لبرل کے دماغ کی نقشہ کشی کی گئی اور لبرلز کو اسلام اور ملک دشمن، سیکس کے بھوکے دکھایا گیا۔ پاکستان میں آپ جس کے خیالات سے متفق نہ ہوں تو بطور گالی اسے ”لبرل“ کہہ دیتے ہیں۔ جبکہ لبرل ازم سے مراد کسی سے مختلف رائے ہونے کو عزت دینے یا قبول کرنے کی آمادگی اور نئے خیالات کے لئے ذہنی کشادگی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ اس سے غیر متفق بھی ہیں۔ کاش انہوں نے تھوڑی ریسرچ یا گوگل ہی کر لیا ہوتا۔

مزید انہوں نے فیمنزم پر بھی بات کی، اپنے انہی خیالات کے سبب وہ خواتین کی خلیل الرحمٰن قمر معلوم ہوتی ہیں، جبکہ بشمول ان خاتون کے ہمارے ملک میں اکثریت کو فیمنزم کی تعریف ہی معلوم نہیں، اس سے مراد جنس سے بالاتر سماجی، سیاسی اور معاشی برابری ہے۔ یعنی سب کو بنیادی حقوق دینا، ضرورت سے زیادہ کنٹرول کا خاتمہ اور مساوی مواقع فراہم کرنے کا نام فیمنزم ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فیمنزم عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی مساوی حقوق دینے کا نام ہے۔ اب ہم اسے یہودی سازش اور غیر ملکی مغربی ایجنڈے کا نام دیتے ہیں۔ اس حساب سے تو یہ اچھی سازش ہوئی جہاں ہم حقوق دینے سے انکاری ہیں اور یہودی نصاریٰ اس کی بات کر رہے ہیں۔

اگر آپ ایک سلیبرٹی ہیں تو آپ کو حساس موضوعات پر بولنے کے لیے محتاط الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے۔ لیکن بقول ان کے ”آج کل بہت لبرلز آ گئے ہیں“ لہذا سب قصور ہی لبرلز کا تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments