تعلیمی ادارہ: چھ گھنٹے بمقابلہ 18 گھنٹے


فرض کریں ہم اپنے بچے کو ایک ”اچھے“ سکول میں داخل کرواتے ہیں۔ سکول کے اوقات کار صبح 8 : 00 بجے سے دوپہر 2 : 00 بجے تک ہیں۔ یہ بچہ 6 گھنٹے سکول میں گزار کر آتا ہے۔

اب ہماری توقعات ہیں کہ ہمارا بچہ 6 گھنٹے سکول میں گزار کر جب واپس آئے تو وہ صرف سچ بولے۔ وہ کوئی غلیظ زبان استعمال نہ کرے۔ وہ صاف ستھرا رہے۔ اس میں بڑوں کا ادب کرنا آ جائے۔ اپنے سے چھوٹے بچوں سے شفقت سے پیش آئے۔ پانچ وقت کا نمازی ہو۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے۔ کپڑے میلے نہ کرے۔ ٹی وی پر مخصوص اوقات میں خبریں اور اچھا پروگرام دیکھے۔ جو چیز گھر میں بنی ہوئی ہو وہ کھا لے اور ضد نہ کرے۔ گھر آئے مہمان کو اچھے طریقے سے ملے اور واپسی پر گیٹ پر چھوڑنے جائے اور اللہ حافظ بول کر گیٹ بند کر کے آئے۔

گندے پاپڑ اور قلفیاں نہ کھائے۔ کھیلنے کے اوقات مقرر ہوں۔ شام کو پانچ سے چھ بجے تک گراؤنڈ میں جائے۔ واپسی پر کپڑے صاف ہوں اور کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہ کر کے آئے۔ سڑک کی دونوں سمت دیکھ کر سڑک پار کرے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں موٹر سائیکل لینے اور چلانے کی ضد نہ کرے حتیٰ کہ وہ جس دن اپنا شناختی کارڈ بنوا کر واپس آئے تو والدین سے درخواست کرے میں آج سے ڈرائیونگ کی تربیت لینے کے لیے پولیس کے ڈرائیونگ سکول میں داخلہ لینا چاہتا ہوں تاکہ لائسنس بن جائے اور میں موٹر سائیکل چلا سکوں۔ موبائل فون استعمال نہ کرے نہ ہی اس پر کارٹون، ویڈیوز یا کوئی گیم کھیلنے کی ضد کرے۔ بس میں سفر کرتے ہوئے اپنے سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے سیٹ چھوڑ دے۔ کبھی کوئی چیز چوری نہ کرے۔ برتن نہ توڑے۔ غصہ نہ کرے۔ اپنے مستقبل کے حوالے سے اسے علم ہو۔ وہ پڑھ لکھ کر اچھے عہدے پر نوکری حاصل کرے۔ وغیرہ وغیرہ

ہم سب لوگ اور تقریباً تمام والدین ایسا مثالی بچہ چاہتے ہیں۔ اور صرف ایک ”اچھے“ سکول میں داخلہ دلوا کر ہماری خواہش ہے کہ 6 گھنٹے میں وہ یہ سب سیکھ لے۔

انسان بنیادی طور پر غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ آپ کسی کو بھی اس کی غلطی بتائیں پہلی بات تو وہ آپ کا مخالف ہو جائے گا۔ اگر اس نے تحمل سے سن بھی لی تو فوراً دلیل پر اتر آئے گا کہ چونکہ اور چنانچہ یہ یہ وجوہات ہیں اس لیے میرا طرزعمل ایسا ہے جس کو آپ میری غلطی سے منسوب کر رہے ہیں۔

ہم نے بھی تمام تر ذمہ داری ایک سکول پر ڈال رکھی ہے کہ ہم اپنے بچے کو سکول داخل کروا کر آئیں اور وہ اس کو ایک مثالی بچہ بنا کر ہمارے حوالے کر دیں۔ بیشک والدین گھر میں رشتہ داروں کی برائیاں کریں، نفرت انگیز باتیں گھر میں ہوں جھوٹ تواتر سے بولا جاتا ہو، غصہ مسلسل ہو رہا ہو، گلی محلے میں اور گھر میں غلیظ زبان استعمال ہو رہی ہو۔ چغلیاں اور غیبت ہر وقت کا معمول ہو۔ موبائل فون کا استعمال حد سے زیادہ ہو۔ بزرگوں اور بڑوں کی باتوں کو اہمیت نہ دی جاتی ہو۔ صفائی کا خیال خود نہ رکھا جاتا ہو۔ لالچ اور بغض بھرا ہوا ہو۔ محلے کے بچے ہاتھوں میں موبائل اور موٹر سائیکل لیے نکلتے ہوں۔

ان سب کے باوجود کہ جب ایک بچہ 6 گھنٹے سکول میں گزارتا ہے تو ہم اس سے امید کرتے ہوں وہ مثالی بچہ بنے۔ 18 گھنٹے وہ کہاں گزارتا ہے؟

کیا ان 18 گھنٹوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے؟
میرا دعویٰ ہے آپ اسے 18 گھنٹے مثالی دیں آپ کا بچہ 6 گھنٹوں میں بھی مثالی کردار ادا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments