بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں


وزیر اعظم صاحب آپ کی بڑی مہربانی کہ آپ نے قوم سے خطاب کے دوران پاکستانی میڈیا کے پچاس سے زائد چینلز پر اور تو جو کہا سو کہا لیکن آپ نے ببانگ دہل اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آپ مرحومہ نور مقدم کے قاتل کو باآسانی نکلنے نہیں دیں گے اور آپ اس کی غیر جانبدارانہ مکمل تفتیش کروائیں گے۔ اپنے خطاب کے دوران آپ نے یہ بھی کہا آپ پوری دل جمعی کے ساتھ اس کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں اور قاتل خواہ کسی بھی شہریت کا مالک ہو بچ نہیں پائے گا۔ اس موقع پر افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا اور اس سے متعلق دیگر واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس جذبے کا اظہار بھی کیا کہ لگتا ہے جیسے وہ آپ ہی کی بیٹی ہو۔

وزیراعظم صاحب!

بیٹیاں سانجھی ہی ہوتی ہیں۔ ان کے دکھ سب کے دکھ اور ان کی خوشیاں سب کی خوشیاں ہوتی ہیں۔ ان کی آنکھ سے گرا آنسو سب کے دلوں میں جم جاتا ہے اور ان کی ایک مسکراہٹ سب کو شاد کر دیتی ہے۔ آپ کے نیک جذبات احساسات ہماری سر آنکھوں پر ہماری دعا ہے کہ ایسا بھیانک دکھ دشمن بھی نہ دیکھے۔

لیکن قانونی اعتبار سے آپ سے ایک چوک ہو گئی۔ نور مقدم کا سانحہ ایک مجرمانہ فعل ہے اور جرم کے رمزے میں آتا ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم یہ آپ کا کام نہیں کہ قوم سے خطاب کے دوران آپ لوگوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ آپ اس کیس میں پوری دلچسپی لے رہے ہیں۔

شاید آپ بھول گئے کہ آپ اس مملکت کے وزیر اعظم ہیں اور اس قوم کی ساری بچیوں، لڑکیوں اور خواتین سے آپ کا عزت احترام کا رشتہ ہے۔ اور ان کی عزت ناموس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔

آپ جس مملکت کو ریاست مدینہ بنانے کے خواب دن رات دیکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں۔ اس ریاست کی جانب بڑھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ ریاست کے تمام بے لگام گھوڑوں کو لگامیں ڈالیں۔ جن کے نفس قابو میں نہیں، جن کے جذبات گٹروں کی طرح کھیت کھلیان، سڑک سڑک، گلیوں راہ داریوں میں ابلتے رہتے ہیں، سڑاند اور بساند سے بھرے مرد نامی ان گھوڑوں کو بہت سخت اور مضبوط چابک کی ضرورت ہے۔ ایسا چابک جو ان کی کھالیں اتار کے ان کے قدموں میں ڈال دے۔

اس ملک کے تمام قانونی اور حفاظتی اداروں کے آپ سربراہ ہیں۔ ان کی کارکردگی پے نظر رکھنا آپ کی اور آپ کے دیگر متعلقین کہ ذمہ داری ہے۔ آپ اور آپ کے اردگرد مکھیوں کی طرح چمٹے اور مچھروں کی طرح اڑتے ان تمام وزیروں اور مشیروں کا کام ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر رکھیں کہ کب، کہاں، کیا ہو رہا ہے؟ کون کون سا کیس سرد خانے کی نظر ہو رہا ہے اور کس کیس میں کہاں کہاں سوراخ چھوڑے جا رہے ہیں۔

ہمارے ٹیکس کے پیسے پر پلنے والی ان جونکوں کی جو فوج آپ نے تیار کی ہے اور ایک آپ ہی نہیں ہماری سیاست اور مملکت کی تاریخ ان جونکوں سے بھری پڑی ہے۔

میرا اصل موضوع یہ جونکیں نہیں بلکہ قوم کی وہ ساری بہو بیٹیاں ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر گاجر مولی کی طرح کاٹی جا رہی ہیں۔ کبھی ان کی لاشیں کچرا کنڈی سے ملتی ہیں تو کبھی نہر کی گہرائی سے، کبھی گھر کے ہنستے بستے کمروں سے، کبھی عزت کے نام پر تو کبھی بے عزتی کے خراج میں، کبھی ہوس کے نام پر تو کبھی آپ کے بقول چھوٹے کپڑوں کے سبب۔

وزیر آ عظم صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پشاور کی بشری، حیدرآباد کی قرت العین، لاہور کی صائمہ، شہداد کوٹ کی نزیرن، کراچی کی فلپننو شیلا، اور ڈائیو کی بسوں میں کام کرنے والی بچیوں سمیت نہ تو کسی کے کپڑے چھوٹے تھے اور نہ ہی وہ کسی اور مکروہ عادت کی شکار تھیں۔

یہ ضرور ہے کہ یہ سب محنت مزدوری کرنے والی غریب گھروں کی بچیاں اور شادی کے نام پر گھر بچانے والی عورتیں تھیں۔

ان کے باپ بھائی وزیر سفیر نہیں تھے۔ ان کے قتل سے نہ ایوان ہلے نہ محلوں پر سکتہ طاری ہوا۔ یہ سب اس ملک کی بچیاں، بیٹیاں اور بہوئیں ہیں۔

آپ کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ آپ کی ریاست مدینہ کے پولیس اہلکار ان کی ایف آئی آر تک نہیں کاٹتے وہ ان کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں وہ ایک الگ داستان ہے۔

آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ ان تمام جونکوں بے لگام گھوڑوں مکھیوں مچھروں اور قانون حفاظت کے اداروں کے سر برا ہوں کی نیندیں اڑا دیں، ان کا جینا حرام کردیں خاص طور پر جن کی نوکریاں قانون کی پاسداری سے وابستہ ہیں۔ ان کا کام جرائم پر پردہ ڈالنا اور وزیروں مشیروں کی حفاظت کرنا نہیں۔ مجرموں کو تلاش کرنا اور انھیں انجام تک پہنچانا ہے۔

آپ پوچھیں وزیر قانون، وزیر انسانی حقوق، وزیر سماجیات، وزیر امور خواتین اور ان سب سے جو وزارتوں کی چاہ میں جوتے صاف کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کے دائرہ اختیار کے ادارے کیا کر رہے ہیں؟

کیا یہ سارے آئی جی ڈی آئی جی شیشہ بند گاڑیوں میں گھومنے کے لئے بنائے جاتے ہیں؟ کیا ان کے گھروں میں بیٹیاں بچیاں نہیں ہیں؟ کیا یہ ساری زندگی ان کرسیوں اور بند کمروں کے مزے لوٹتے رہیں گے؟ کیا ان کو کبھی موت نہ آئے گی؟

مانا کہ کچرا کنڈی سے ملنے والی چھ سالہ بچی کا باپ سابق سفارت کار نہ تھا لیکن باپ تو ہے۔ بچوں کے سامنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی عورت کا باپ بہت بڑا بزنس مین نہ تھا لیکن باپ تو ہے۔ چاقو کے پچیس زخم کھانے والی خدیجہ کا باپ بیٹی کا ہاتھ تھامے انصاف کے لئے سالوں بھٹکتا رہا لیکن اندھا انصاف اندھا ہی رہا۔

وزیر اعظم صاحب جاگیں اور اپنے نیچے والوں کو جگائیں۔ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments