پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے مظہر سعید شاہ پر تنازعہ کیوں؟


مولانا مظہر سعید شاہ

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں علما و مشائخ کی مخصوص نشست کا انتخاب تنازعہ کا شکار ہوگیا ہے۔ اس نشست پر کامیاب ہونے والے امیدوار پر الزام ہے کہ وہ ماضی میں وقتاً فوقتاً پاکستان کی کالعدم تنظیموں کے علاوہ افغان طالبان کے عہدے دار رہے ہیں۔

46 سالہ مولانا محمد مظہر سعید شاہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی حمایت سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں علما و مشائخ کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئے ہیں۔ اسمبلی میں براہ راست منتخب ہونے والے 45 اراکین میں سے 27 نے ان کے حق میں ووٹ ڈالے جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار کو 14 ووٹ ملے ہیں۔

منگل کے روز ان سمیت دس منتخب ممبران اسمبلی نے حلف بھی اٹھا لیا ہے۔

مظہر شاہ کے منتخب ہونے کے بعد مقامی و انڈین میڈیا سمیت پاکستان کے چند سیاسی حلقوں کی جانب سے ان پر اور پاکستان تحریک انصاف پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک نیوز کانفرنس میں مظہر سعید شاہ کی نامزدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ایک ’سابق طالبان عہدیدار کو علما مشائخ کی نشست پر نامزد کر کے پوری دنیا کو غلط پیغام دیا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔‘

مظہر سعید شاہ کا ردعمل

مظہر شاہ نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات لاعلمی پر مبنی ہے اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر اتنی کمزور بات ان کو زیب نہیں دیتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری کو اس بے بنیاد الزام پر پوری کشمیری قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ کیا مجھے وہ بتا سکتے ہیں کہ میں طالبان کے نظام میں کس کابینہ کا حصہ رہا ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افغانوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ باہر کے کسی بندے کو گورنر تسلیم نہیں کرتے۔‘

مولانا مظہر سعید شاہ

پاکستان کی کالعدم تنظیموں کے عہدیدار رہنے پر کیے جانے والے سوال کے جواب میں انھوں نے اس تعلق کی تصدیق یا تردید نہیں کی البتہ ان کا کہنا تھا کہ ’میرا مذہب میرا دین میرے ملک کا آئین اور اقوام متحدہ کا چارٹر مجھے میری آزادی کا تحفظ دیتا ہے میں اپنی آزادی کے لیے پہلے بھی حریت کی بات کرتا رہا ہوں اب بھی کروں گا اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔‘

کیا مظہر سعید شاہ ماضی میں کالعدم جماعتوں کے عہدیدار رہے؟

یہ الزامات اور ان کی وضاحت اپنی جگہ لیکن بی بی سی نے مختلف کالعدم تنظیموں کے سابق عہدیداروں سے بات چیت کر کے اس بارے میں حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

مظفرآباد میں مقیم کالعدم جماعت حرکت الانصار سے وابستہ ایک سابق عہدیدار نے بتایا کہ ’مظہر سعید شاہ گو کہ مختلف کالعدم تنظیموں سے وابستہ رہے مگر انھوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جا کر کبھی مسلح جدوجہد میں حصہ نہیں لیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مظہر سعید کالعدم تنظیموں کے انتظامی امور سے وابستہ رہے اور زیادہ وقت کراچی میں گزرا جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت سے اب تک ان کے طالبان سے گہرے روابط رہے ہیں اور اس سلسلے میں ان کا افغانستان آنا جانا رہا ہے۔‘

یاد رہے کہ مظہر سعید شاہ نے طالبان سے تعلق کی تمام خبروں کی تردید کی ہے۔

کالعدم تنظیم کے سابق عہدیدار نے بتایا کہ ’مظہر سعید شاہ سنہ 1999 کے بعد کراچی میں دینی و عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے پہلے کالعدم جہادی تنظیم حرکت الانصار سے وابستہ ہوئے بعدازاں سرگرم رکن ہونے پر وہ کراچی میں تنظیم کے امیر سمیت اہم عہدے پر فائز رہے۔‘

ان کے مطابق ’مظہر سعید کے مسعود اظہر سے قریبی تعلقات تھے جس بنا پر جب مسعود اظہر کے 2001 میں اپنی جماعت کے لوگوں کے ساتھ اختلافات ہوئے تو انھوں نے نئی تنظیم جیش محمد بنائی تو مظہر سعید شاہ بھی مسعود اظہر کے ہمراہ جیش محمد کے بانی لوگوں میں شامل ہو گئے۔‘

کالعدم جماعت کے سابق عہدیدار کے مطابق ’مظہر سعید کالعدم جیش محمد سندھ کے امیر بھی رہے مگر مسعود اظہر کے ساتھ ان کی رفاقت زیادہ نہ چل سکی۔ جیش محمد میں مسعود اظہر سے اختلافات کی بنیاد پر کالعدم جہادی تنظیم 2011 میں تقسیم کا شکار ہو گئی اور ایک نیا دھڑا ’تحریک الفرقان‘ کے نام سے سامنے آیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر اور مظہر شاہ کے اختلافات کا سلسلہ ختم نہ ہوا اور مظہر سعید شاہ نے ’تحریک غلبہ اسلام‘ کے نام سے اپنی الگ جماعت قائم کر لی۔‘

انھوں نے بتایا کہ مولانا مظہر نے آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں اپنے قائم کردہ ایک ٹرسٹ کے تحت رفاعی کام بھی کیا جس پر بعد میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سنہ 2012 میں سیالکوٹ میں مظہر شاہ سمیت ان کے دیگر ساتھیوں پر حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر کالعدم جہادی تنظیموں میں اختلافات کے بنا پر رونما ہوا مگر اس کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔‘

سندھ میں حرکت الانصار و حرکت المجاہدین کے ایک سابق امیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مولانا مظہر سعید شاہ کا زمانہ طالب علمی پھر جہادی تنظیموں میں آنے سے ابتک کا سفر میرے آنکھوں کے سامنے ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جہادی تنظیموں میں مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں پر فائز رہے مگر ان کا بنیادی کام دعوت و ارشاد اور مالیاتی امور کی نگرانی کا تھا۔‘

مولانا مظہر سعید شاہ

ان کا کہنا تھا کہ ’مظہر سعید دینی و عصری علوم میں مہارت رکھتے تھے اور اپنی ذہانت اور علم کی وجہ سے ان کی تقریر و تحریر کافی موثر تھی لہذا وہ شعبہ دعوت ارشاد کے تحت تنظیم کے نظریے کو بذریعہ تقریر و تحریر عام لوگوں تک پہنچاتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’افغانستان سمیت پاکستان میں جہادی تنظیموں میں ان کے روابط کا ایک بنیادی ذریعہ کمانڈر مولوی عبدالجبار بھی تھے جو ان کے قریبی ساتھی تھے اور جو ان کی جماعت تحریک غلبہ اسلام کا حصہ بھی رہے۔ ان کو ہم حاجی صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’مولوی عبدالجبار نے مظہر سعید کو ہر محاذ پر پروموٹ کیا۔ مولانا مظہر سعید افغانستان میں طالبان دور میں کسی عہدے پر فائز نہیں رہے البتہ ان کے طالبان حکومت میں اچھے تعلقات تھے۔ جبکہ ان کے قریبی دوست مولوی عبدالجبار طالبان دور میں ایک ضلع کے کمانڈر تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مولوی عبدالجبار سے تعلق کی بنیاد پر مولانا مظہر شاہ کے بارے میں لوگ غلط آرا رکھتے ہیں کہ یہ بھی طالبان کے دور میں کسی عہدے پر فائز رہے۔

’میری معلومات کے مطابق مولوی عبدالجبار افغانستان میں مسلح جدوجہد کا حصہ رہے مگر مولانا مظہر سعید کشمیر اور نہ افغانستان میں کسی مسلح جدوجہد کا حصہ رہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ سنہ 2019 میں کالعدم تنظیموں پر کریک ڈاؤن کے دوران مولانا مظہر شاہ کو کراچی سے حراست میں لیا گیا تاہم کچھ عرصہ بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ اس دوران ان کے زیر سایہ چلنے والے مدرسوں کو سندھ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔‘

مولانا مظہر سعید کے قریبی عزیزوں کے مطابق ان کو متعدد بار سکیورٹی اداروں نے اپنی تحویل میں لیا مگر کچھ عرصہ بعد ان کو رہا کر دیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیے

سیاسی جماعتوں کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات، کتنا سچ ہے؟

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے کیوں اہم ہیں؟

نون لیگ کو حالیہ انتخابات میں ناکامی: ’زیادہ زور لگانا پڑے گا کیونکہ آگے چڑھائی ہے‘

مولانا مظہر سعید شاہ

مولانا مظہر سعید شاہ کون ہیں؟

محمد مظہر سعید شاہ المعروف عبداللہ شاہ مظہر کا گھرانہ برطانوی دور سے سیاسی و مذہبی طور پر پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔

ان کا تعلق کشمیر کے معروف شاعر، مصنف اور مذہبی سکالر انورا شاہ کشمیری سے ہے جبکہ مظہر شاہ کے نانا مولانا غلام مصطفیٰ شاہ مسعودی مہاراجہ کشمیر کے دور میں متحدہ کشمیر اسمبلی کے مظفرآباد سے رکن رہ چکے ہیں۔

مولانا غلام مصطفیٰ کے چچازاد بھائی سعید مسعودی نیشنل کانفرنس کے سربراہ شیخ عبداللہ کے سیکرٹری جنرل تھے جن کا خاندان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم ہے۔

مظہر شاہ مسعودی 1975 میں کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے شرف آباد گورنمنٹ ہائی سکول سے میڑک اور بعدازاں کراچی کے ایک کالج سے ایف ایس سی کی۔

ایف ایس کے بعد ناظم آباد میں مولانا عبدالرشید کے مدرسے سے درس نظامی کے پہلے سال کی تعلیم حاصل کی اور سنہ 1999 میں آٹھ سالہ درس نظامی کا کورس جامعہ عربیہ احسن العلوم سے مولانا زرولی خان سے مکمل کیا جبکہ حدیث کی تعلیم مفتی تقی عثمانی، مولانا سرفراز خان صفدر اور مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ سے حاصل کی۔

درس نظامی کے دوران 1997 میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور یہاں ہی سے 2005 میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔

مظہر سعید شاہ کے مطابق اب وہ فیڈرل یونیورسٹی میں ایم فِل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔

مولانا مظہر شاہ مسعودی کا تعلق لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے لوات بالا سے ہے۔

وہ سنہ 2006 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی انتخابی سیاست کا پہلی مرتبہ حصہ بنے جب انھوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے وادی نیلم سے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

سنہ 2008 میں وادی نیلم کے سماجی و عوامی حقوق کے تحفظ اور بحالی کے لیے بنائے جانے والے فورم ’نیلم عوامی محاذ‘ کو قائم اور فعال رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا مگر اس کے بعد کئی برس منظر عام سے غائب رہے جبکہ گزشتہ برس جب پاکستان میں اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وادی نیلم کا دورہ کیا تو ان کی میزبانی کے فرائض مولانا مظہر سعید نے ادا کیے اور ایک مرتبہ پھر مقامی و قومی سطح پر خبروں کی زینت بنے۔

مولانا فضل الرحمن نے کئی روز ان کے آبائی گاؤں لوات میں ان کے ساتھ قیام کیا تھا اور سوشل میڈیا پر سیاحتی مقامات کی تصاویر کو شئیر کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مقامی تقریبات اور جلسوں میں عمران خان کی کشمیر پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

رواں برس جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو مولانا مظہر نے مسلم کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کیا مگر ٹکٹ نہ ملنے پر انھوں نے مسلم کانفرنس کو خیر آباد کہہ کر مولانا فضل الرحمن سے ناراض ایک دھڑے آل جموں و کشمیر جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کر لی۔

اس دھڑے نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سرادر تنویر الیاس سے ملاقات کی جس کے بعد انھوں نے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا۔ اسی اتحاد کے نتیجے میں مولانا مظہر سعید کو علما مشائخ کی مخصوص نشست پر منتخب کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp