مردوں کی آزادی (خط # 10) 


محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

آپ کا خط پڑھتے ہوئے میں یہ سوچ کر اداس ہو گیا کہ مشرقی دنیا میں نجانے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار نہیں کر سکتیں اور اگر کرنا چاہیں تو انہیں ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے مغربی عورت نے دو سو سال کی جدوجہد سے یہ سیکھ لیا ہے کہ اس کی جذباتی  ’سماجی اور تخلیقی آزادی و خودمختاری کا گہرا تعلق اس کی معاشی آزادی و خود مختاری سے ہے اور عورتوں کی معاشی آزادی میں ڈگری اور ڈرائیونگ لائسنس بہت مدد کرتے ہیں۔

مغربی عورت ڈگری اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد

اچھی سی نوکری تلاش کرتی ہے

کار خریدتی ہے

اپنا علیحدہ گھر لیتی ہے

اکیلے رہتی ہے

اور اپنی مرضی کے دوست اور محبوب چنتی ہے اور جو محبوب پسند آ جائے اس سے شادی کر لیتی ہے اور چونکہ وہ معاشی طور پر خود مختار ہوتی ہے اس لیے اگر شوہر اس سے عزت اور محبت کرنا چھوڑ دے تو وہ بھی اسے چھوڑ دیتی ہے۔

مغربی دنیا میں عورتوں کا اکیلے رہنا یا کسی سہیلی کے ساتھ رہنا بہت عام سی بات ہے۔

میں نے بہت سی مغربی عورتوں کو دیکھا ہے

جو ڈاکٹر ہیں انجینئر ہیں وکیل ہیں بزنس وومن ہیں

یہ علیحدہ بات کہ جب کسی ادارے کا صدر بننے کا یا ڈائرکٹر بننے کا موقع آتا ہے تو وہاں مرد آگے بڑھ جاتا ہے عورت پیچھے رہ جاتی ہے یا پیچھے دھکیل دی جاتی ہے۔

اس لیے مغرب میں بھی عورت ابھی تک پوری طرح مرد کے برابر حقوق و مراعات حاصل نہیں کر سکی لیکن اس منزل کے قریب آتی جا رہی ہے۔

عورتوں کی کامیابی میں جہاں مذہب اور روایت حائل ہیں وہاں یہ بھی اہم ہے کہ بہت سی عورتیں خود اتنی عدم اعتمادی کا شکار ہیں کہ وہ دوسری عورتوں پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتیں۔

اس کی ایک مثال امریکہ کا الیکشن ہے۔ امریکہ میں بدقسمتی سے ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گیا ہلری کلنٹن نہیں بنی یہ علیحدہ بات کہ ہلری کلنٹن ڈونلڈ ٹرمپ سے کئی گنا زیادہ قابل اور صدارت کی حقدار تھی۔

مغرب میں جہاں عورتیں معاشی سماجی و نفسیاتی تبدیلیوں سے گزر رہی ہیں وہیں مغربی مرد بھی ان تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔

ان کے لیے

گھر کا کام کرنا

کھنا پکانا

بچوں کا خیال رکھنا معیوب نہیں رہا۔

میں کئی شوہروں کو جانتا ہوں جو باپ بننے کے بعد کئی ماہ paternity leave لے کر بچے کے ساتھ گھر میں رہے اور بیوی نوکری کرنے چلی گئی کیونکہ بیوی شوہر سے زیادہ کماتی تھی۔

یہاں عورت کا زیادہ کمانا بھی مرد کی غیرت کا مسئلہ نہیں بنتا۔

عورتوں کی آزادی کے ساتھ ساتھ مرد بھی آزادی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ میں نے۔ ہم سب۔ کے ایک کالم میں مردوں کی آزادی کے حوالے سے لکھا تھا۔

میں نے جن مردوں کو ذہنی طور پر آزاد ہوتے دیکھا ہے میں انہیں دو گروہوں میں بانٹ سکتا ہوں

پہلا گروہ ان مردوں کا ہے جن کی زندگی میں عورتوں نے جب آزادی و خود مختاری کا سفر شروع کیا تو یہ مرد ان کے شریک سفر بن گئے۔ ایسے مردوں کی کوششوں کو جہاں کچھ لوگوں نے سراہا وہیں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ایسے مردوں کو  ’زن مرید‘  WIMP AND SISSY کہہ کر ان کا مذاق اڑایا اور ان کی مردانہ غیرت اور مردانگی کو للکارا۔

دوسرا گروہ ان مردوں کا ہے جنہوں نے جب خود کو انسان کی حیثیت سے آزاد کیا تو وہ مرد کی حیثیت سے بھی آزاد ہو گئے۔ انہوں نے اپنے خود احتسابی کے عمل سے صدیوں کی ذہنی زنجیروں کو جانا  ’پہچانا اور پھر انہیں کاٹ کر پھینک دیا۔ اس طرح ان کی مردانہ آزادی ان کی انسانی آزادی کا حصہ تھی۔ میں نے جب ایک امریکی دانشور ARTHUR SCHLESINGER کے مقالے THE CRISIS OF AMERICAN MASCULINITY کا مطالعہ کیا تو مجھے مندرجہ ذیل جملے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ لکھتے ہیں

 ’مردانگی یہ نہیں کہ ہم اپنی زندگی میں آئی ہوئی عورتوں کی تذلیل کریں۔ مردوں کا عورتوں سے احساس برتری گوروں کے کالوں سے احساس برتری کی طرح قصہ پارینہ ہو گیا ہے۔ وہ انسانی تاریخ کے تاریک دور کا حصہ بن چکا ہے۔ عورتوں کی آزادی و خود مختاری عورتوں کے لیے ہی نہیں مردوں کے لیے بھی ایک اچھا شگون اور خوش خبری ہے۔ مردوں کو اپنی شناخت بدلنی ہوگی جب وہ عورتوں کو بھی اپنی طرح برابر کا انسان سمجھیں گے تو دونوں اصناف ماضی کی بوسیدہ زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوں گی اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گی‘

بہت سے مردوں کے لیے بدلنا اگر آسان نہیں تو دشوار بھی نہیں۔

محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

مشرق میں مرد اور عورت کا رشتہ۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ ابھی تک آقا اور غلام۔ مالک اور کنیز۔ کا رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ اور اپنی برتری کے لیے مرد بہت سے مذہبی، سماجی اور قانونی جواز پیش کرتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مغرب میں مرد اور عورت کا رشتہ دوستی کا رشتہ ہے۔ میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ میں نے محبت بھرے رشتے کے لیے لکھا تھا

in a loving relationship

friendship is the cake

romance is the icing

اب آپ مجھے بتائیں کہ مشرق میں عورت اور مرد دوست کیوں نہیں بن سکتے؟

آخر آپ اور میں عمروں اور ہزاروں میلوں کے فاصلوں کے باوجود دوست بن گئے ہیں۔ باقی مشرقی مرد اور عورتیں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

جواب کا منتظر

خالد سہیل

28 مئی 2021

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments