اولمپک ایسوسی ایشن بازار ہی سے تمغہ خرید لے!


پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ایک قسم کی سرکاری تنظیم ہے جو گزشتہ تہتر برس سے قائم ہے۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر اس کا مشن کچھ یوں لکھا ہے کہ اس کا مقصد ’اولمپک چارٹر کے تحت اولمپک ایسوسی ایشن کے ویژن کو قابل عمل طریقے سے پھیلا کر پاکستان میں اولمپک تحریک کو ترقی دینا، اس کی ترویج کرنا اور اس کا تحفظ کرنا ہے۔‘ اللہ جانے اس کا کیا مطلب ہے، غالباً ’وہ‘ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارا مقصد اولمپک کے تمغے اکٹھا کرنا نہیں بلکہ بھائی چارے کی فضا وغیرہ پیدا کرنا ہے۔

ویب سائٹ کی مزید پڑتال کریں تو اس پر اولمپک ایسوسی ایشن کا آئین بھی مل جاتا ہے، اس آئین میں سب کچھ لکھا ہے مگر یہ نہیں لکھا کہ وہ کون سے حالات ہوں گے جب سمجھا جائے گا کہ یہ ادارہ عضو معطل بن چکا ہے لہذا اسے بند کر دینا چاہیے۔ ویب سائٹ کا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جہاں تمغوں کی تفصیل درج ہے اور پتا چلتا ہے کہ اب تک پاکستان کتنے اولمپک میڈل جیت چکا ہے۔ اس تفصیل کے مطابق 1956 سے لے کر 1992 تک پاکستان نے تین طلائی تمغوں سمیت کل دس تمغے جیتے اور 1992 کے بعد سے ایک بھی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

گزشتہ سترہ برس سے لیفٹننٹ جنرل (ر) سید عارف حسین اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں اور آج کل سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کی زد میں ہیں، لوگ کہہ رہے کہ سترہ برس میں پاکستان ایک کانسی کا تمغہ بھی نہیں جیت پایا تو کیا یہ جنرل صاحب کی ناکامی کے ثبوت کے لیے کافی نہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ بات کہنا نہ صرف جنرل صاحب کی توہین ہے بلکہ زیادتی بھی ہے کیونکہ تمغہ تو اس ملک میں 1992 سے نہیں آیا جبکہ جنرل صاحب محض 2004 سے اس عہدے پر متمکن ہیں۔

اس سے پہلے بھی 44 برسوں میں رو پیٹ کر محض دس تمغے ہی آئے تھے، سو یہ کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں جس کی بنا پر کہا جائے کہ ماضی میں توہم ہر مرتبہ درجن بھر سونے کے تمغے گلے میں لٹکا کر لے آتے تھے مگر جب سے جنرل صاحب آئے ہیں تب سے ہماری اولمپک کارکردگی صفر ہے۔ اس ویب سائٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اولمپک ایسوسی ایشن اچھی خاصی بڑی تنظیم ہے، ملک کے طول عرض میں اس کی ماتحت انجمنیں ہیں اور مختلف کھیلوں کی تقریباً تین درجن فیڈریشنز اس کے علاوہ ہیں جو ایک طرح سے اولمپک ایسوسی ایشن کی نگرانی میں کام کرتی ہیں۔

اس دیو قامت ادارے کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو وہی کچھ ہوگا جو ہم سب کے پاس اپنی ناکامی اور نالائقی کے دفاع میں کہنے کو ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ سے بھی اگر پوچھا جائے گا تو وہ سہولیات کی کمی کا رونا روئیں گے، فنڈز کی قلت کی دہائی دیں گے اور کوئی بعید نہیں یہ بھی کہیں کہ اگر ہمارے پاس پیسے ہوں تو ہم اپنے کھلاڑیوں کو بازار سے ہی تمغے خرید کر دے دیں۔

اللہ میرے گناہ معاف کرے، میرا ارادہ اولمپک ایسوسی ایشن پر تنقید کرنے کا ہر گز نہیں، تنقید تو تب کی جائے جب ملک کے دیگر شعبوں میں بہار آئی ہو اور محض ایک شعبہ تنزلی کا شکار ہو۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ پورا معاشرہ ہی زوال پذیر ہے۔ ادب، آرٹ، موسیقی، فلم، تھیٹر، کھیل، ہر جگہ قحط الرجال ہے۔ سول سروس ہو یا میڈیا، عدلیہ ہو یا مقننہ، نجی ادارہ ہو یا قومی ادارہ، کہیں بھی ہمیں وہ کمال نظر نہیں آتا جو کسی حد تک ساٹھ یا ستر کی دہائی میں موجود تھا۔

انفرادی طور پر یقیناً کچھ لوگ معاشرے میں اب بھی موجود ہیں جو قابل رشک قابلیت اور ہنر رکھتے ہیں مگر اس قسم کے لوگ آپ کو بدترین نظام میں بھی مل جائیں گے۔ معاشرے کی عمومی ترقی یا زوال کا تعین مٹھی بھر لوگوں کی ذاتی خوبیوں یا خامیوں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر شعبے میں واضح نظر آنے والی ناکامی یا کامیابی سے لگایا جا تا ہے۔ بطور قوم ہم کتنے نالائق یا ہنر مند ہیں یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، اولمپک کی رسوائی سے لے کر سول سروس کی زبوں حالی تک، زوال کی داستاں ہمارے ماتھے پر لکھی ہے۔

ہمیں یہ بھی لگتا ہے کہ چند سال پہلے تک ہمارا حال اتنا برا نہیں تھا جتنا اب ہے۔ آخر یہ کوئی صدیوں پرانی بات تو نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر سال دو سو فلمیں بنتی تھیں، تھیٹر پر ایسے عمدہ مزاحیہ کھیل ہوا کرتے تھے کہ جنہیں دیکھ کر ہندوستان کے فنکار رشک کیا کرتے تھے، موسیقی میں نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، نور جہاں، غلام علی، ریشماں، ناہید اختر اور ایسے درجنوں عظیم گلو کاروں کا طوطی بولتا تھا، اعلی ٰ معیار کی شاعری کرنے والے شاعر اور ادبی شہ پارے تخلیق کرنے والے ادیب ہم میں موجود تھے، صادقین، گل جی اور شاکر علی جیسے فنکاروں نے بھی آخر اسی معاشرے اپنا عروج دیکھا۔ پھر چند ہی برسوں ایسا کیا ہوا کہ سونا اگلنے والی یہ زمین بنجر ہو گئی؟

دراصل کسی بھی معاشرے میں ذہین اور قابل لوگوں کی تعداد کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ آئر لینڈ میں صرف جینئیس پیدا ہوں گے اور ٹانگا نیکا میں فقط نالائق بچے جنم لیں گے۔ یہ کسی بھی ملک کا نظام ہوتا ہے جو اپنے ذہین اور قابل لوگوں کو ’فلٹر‘ کرتا ہے، جس ملک کا یہ تطہیری نظام جتنا بہتر ہوگا اتنا ہی اس ملک میں ٹیلنٹ پھلے پھولے گا۔ ہمارے جیسے ممالک میں بھی اتنے ہی قابل لوگ پیدا ہوتے ہیں جتنے کسی بھی دوسرے ملک میں، مگر ہماری زیادہ تر قابلیت فرسودہ تعلیمی اور سماجی نظام کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہے۔

جس سنہری دور کو یاد کر کے ہم خود کو عظیم ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس سنہری دور کی بنیاد یں صدیوں پہلے کے متحدہ ہندوستان میں تھیں جب موسیقی، آرٹ اور شعر و ادب کی سرپرستی شہنشاہ معظم کیا کرتے تھے۔ ہندوستان کے بادشاہ اگر سائنس کی سرپرستی کرتے تو ہم اپنے ملک میں تھوڑی بہت سائنسی ترقی بھی دیکھ لیتے مگر انہوں نے چونکہ فنون لطیفہ کے سر پر ہاتھ رکھا سو ہم نے انہی شعبوں میں ترقی دیکھی اور ان میں زوال بھی آتے آتے ہی آیا۔

فرد ہو یا قوم، وہ اپنی توانائی جس شعبے میں بھی صرف کرے گی، اس شعبے میں کمال حاصل سپل برگ گی۔ کرکٹ اور ہاکی میں ہم نے کافی عرصے تک کمال حاصل کیے رکھا کیونکہ ان کھیلوں کو کچھ نہ کچھ سرکاری سرپرستی حاصل تھی، سکواش کا معاملہ یہ تھا کہ یہ چند افراد کی ذاتی محنت اور لگن تھی جس نے انہیں دنیا میں بام عروج پر پہنچایا،

وہ لوگ جب یہ کھیل چھوڑ گئے تو سکواش میں بھی ہمارا وہی حال ہو گیا جو دیگر شعبوں میں تھا۔ یقیناً وسائل اور پیسہ ہر شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر اصل چیز جذبہ ہے، دنیا کے وہ ممالک بھی طلائی تمغہ جیت کر گھر لے آتے ہیں جو وسائل کے ہجے بھی نہیں جانتے۔ عامر خان کی فلم ’دنگل‘ اس موضوع پر شاہکار فلم ہے، اس فلم میں دکھایا ہے کہ کیسے بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے شخص نے محض محنت اور لگن کی بدولت اپنی دو بیٹیوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ بھارت کے لیے بین الاقوامی کشتی کے مقابلوں میں تمغے جیت کر لے لائیں۔

مگر یہ تمام مثالیں ذاتی ٹیلنٹ اور جذبے کی ہیں، ان میں ریاستی سرپرستی اور اس تطہیری نظام کا کوئی کمال نہیں جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک تسلسل کے ساتھ ہر شعبے میں اعلی ٰ معیار کو قائم رکھتے ہیں اور تمغوں پر تمغے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ اولمپک میں ایک تمغہ جیتنے یا کرکٹ کا کوئی چھوٹا موٹا میچ جیتنے سے حل نہیں ہوگا، یہ معاشرے کے زوال کا مسئلہ ہے جس سے نجات پانے کے لیے پورا ایک فلٹریشن سسٹم درکا ر ہے جو ہمارے ہاں ناپید ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments