فیٹف: جون سے اگست اور اپوزیشن کے سو پیاز


علی محمد خان صاحب عمران حکومت کے وہ واحد وزیر ہیں جو پارلیمانی کارروائی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان کی محنت کو مگر کماحقہ پذیرائی نہیں ہو پائی ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے پارلیمانی امور کے ’’چھوٹے‘‘ وزیر ہی چلے آرہے ہیں۔ ان کی لگن کے اعتراف کے باوجود یہ اصرار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ہر وزارت سے متعلق اٹھائے سوالات کا تسلی بخش جواب فراہم نہیں کرسکتے۔ پاکستان کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کا معاملہ ویسے بھی انتہائی گھمبیر ہے۔ وزارتِ خزانہ سے شاید اس قضیے کو وزارت خارجہ والے زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔

منگل کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وقفہ سوالات کے دوران اٹھائے موضوعات کا جو کتابچہ ہمیں ملا اس میں سرفہرست پیپلز پارٹی کی محترمہ شمیم آرا کی جانب سے بھیجا ایک سوال تھا۔ وہ جاننا چاہ رہی تھیں کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے کب تک باہر آجائے گا۔

وزارت خزانہ نے اس سوال کا تکنیکی زبان میں تفصیلی جواب فراہم کررکھا تھا۔ وہ مگر ہمارے ذہنوں میں موجود سوالات کا تشفی بخش جواب نہیں تھا۔ محترمہ شمیم آرا نے سادہ الفاظ میں سپیکر کو یہ بھی یاد دلایا کہ چند ماہ قبل بھی انہوں نے مذکورہ سوال ہی کو تحریری صورت میں حکومت سے پوچھا تھا۔ انہیں ایوان میں بتایا گیا کہ 30جون  2021 تک پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر آ جائے گا۔ اب اگست آ گیا ہے۔ پاکستان مگر بدستور گرے لسٹ میں موجود ہے۔

شوکت فیاض ترین ایک ٹیکنوکریٹ ہوتے ہوئے قومی اسمبلی میں آنا اپنی توہین گردانتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے ہونہار فرزند زین قریشی صاحب وزیر خزانہ کی عدم موجودگی میں پارلیمانی سیکرٹری کے طور پر اس وزارت سے متعلق اٹھائے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ منگل کے روز وہ بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ علی محمد خان لہٰذا سینہ پھلا کر کھڑے ہو گئے۔ ناک کو سیدھا پکڑنے کے بجائے یاد دلانا ضروری سمجھا کہ فیٹف نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران دھکیلا تھا۔ حقیقت جبکہ یہ رہی کہ یہ واقعہ ان کی فراغت کے فوراَ بعد ہوا تھا۔ نواز شریف کو پاکستان کی ہر مصیبت کا ذمہ دار ٹھہرانا مگر تحریک انصاف کی عادت ہے۔ علی محمد خان بھی اسے نظرانداز نہ کر پائے۔

نواز شریف کو فیٹف کی وجہ سے آئی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد علی محمد خان صاحب نے بہت فخر سے بیان کرنا شروع کیا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے مذکورہ تنظیم نے ہماری حکومت سے 27 اقدامات لینے کا تقاضہ کیا تھا۔ ان میں سے 26 شرائط پوری کر دی گئی ہیں۔ معاملہ اب فقط ایک ’’تکنیکی‘‘ نکتے پر اٹکا ہوا ہے۔ موصوف نے کھل کر اس ’’تکنیکی‘‘نکتے کی وضاحت نہیں کی۔ اشاروں کنایوں میں محض عندیہ دیا کہ حکومت کو چند افراد کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کو مجبور کیا جا رہا ہے۔ غالباَ یہ وہ افراد ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے دہشت گردوں اور انہیں سرمایہ فراہم کرنے والوں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔

وزیر پارلیمانی امور نے ان افراد کے نام نہیں لئے۔ نہ ہی اقوام متحدہ کی بنائی فہرست کا ذکر کیا۔ محض ’’تکنیکی‘‘ نکتے کے سرسری ذکر کے بعد تکرار شروع کر دی کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔ اسے آئین اور قوانین کے تحت چلایا جاتا ہے۔ عمران حکومت فقط ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے جو ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب نظر آئیں۔ کسی دوسرے ملک کی خواہش ہمیں ان کے ناپسندیدہ افراد کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کو مجبور نہیں کر سکتی۔

نیب کے خوف سے مفلوج ہوئے اپوزیشن کے اراکین علی محمد خان کی بڑھک بازی کو حیران کن خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ وزیر پارلیمانی امور سے وگرنہ استفسار کرنا لازمی تھا کہ پاکستان اگر واقعات ایک خودمختار ملک ہے۔ طاقت ور ملکوں یا عالمی تنظیموں سے ڈکٹیشن نہیں لیتا تو آج سے ایک سال قبل انتہائی عجلت میں بھاری بھر کم تعداد میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے وہ قوانین کیوں منظورکروائے گئے تھے جن کا مقصد پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر نکلوانا بتایا گیا تھا۔ دن رات ’’چور اور لٹیرے‘‘ ٹھہرائے جانے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نمائوں نے رات کے اندھیرے میں سپیکر قومی اسمبلی کے سرکاری گھر میں حاضر ہوکر مذکورہ قوانین کو ایوان میں تفصیلی بحث کے بغیر منظوری کا وعدہ کیا تھا۔ قومی سلامتی کے نگہبانوں نے انہیں واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ پاکستان کے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں فیٹف کو تسلی دینے والے قوانین کو سرعت سے منظور کرنا ضروری ہے۔

اپوزیشن کی فدویانہ رضا مندی کے باوجود ایک دن شاہ محمود قریشی صاحب دندناتے ہوئے ایوان میں آئے اور دعویٰ کیا کہ پاکستان کے قومی مفاد میں تیار ہوئے قوانین کی منظوری میں تعاون کے عوض اپوزیشن والے اپنے لیڈروں کے لئے این آر او مانگ رہے ہیں۔ اپوزیشن پھر بھی مشتعل نہ ہوئی۔ سو جوتوں کے ساتھ سو پیاز بھی کھاتی رہی۔ احساس حمیت سے قطعاَ محروم اپوزیشن جماعتیں خود اذیتی کے مرضی میں یقینا مبتلا ہو چکی ہیں۔ وہ مراد سعید اور علی امین گنڈا پور جیسے وزرا کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے کی حقدار ہے۔ علی محمد خان صاحب مگر ان کا لحاظ کرتے رہے۔ ناپ تول کر مہذب زبان میں اپوزیشن پر طنز کے تیر اچھالتے رہے۔

عا م پاکستانی ہوتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی علت خود اذیتی میرا درد سر نہیں۔ میں حقیقی معنوں میں پریشان اس وقت ہوگیا کہ جب علی محمد خان صاحب نے پارلیمانی زبان میں یہ عندیہ دیا کہ پاکستان شاید فیٹف کی گرے لسٹ سے فی الوقت باہر نہیں آپائے گا۔ وجہ اس کی انہوں نے یہ بتائی کہ عمران خان صاحب اس وقت ہمارے وزیر اعظم ہیں اور انہوں نے “Absolutely Not” کہہ دیا ہے۔

وزیر پارلیمانی امور کے دعویٰ کو سنجیدگی سے لیا جائے تو پیغام یہ ملتا ہے کہ دس سے زائد قوانین کی سرعت سے منظوری کے ذریعے پاکستان نے فیٹف کی عائد کردہ تمام شرائط پوری کردی تھیں۔ ہمارے کیس کا لیکن میرٹ پر فیصلہ کرنے کے بجائے فیٹف نے امریکہ سے رجوع کیا۔ امریکہ نے اسے ’’مٹھ رکھنے‘‘ کا حکم صادر کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر افغانستان پرنگاہ رکھنے کے لئے ایک فوجی اڈے کا طلب گار تھا۔ عمران خان صاحب نے مگر Absolutely Notکہتے ہوئے گل ہی مکا دی۔ ہم لہٰذا گرے لسٹ ہی میں پھنسے رہیں گے۔

علی محمد خان صاحب کے دعوے کو مزید سنجیدگی سے لیا جائے تو خوف یہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ Absolutely Notکی وجہ سے آئی ایم ایف ہمیں 6 ارب ڈالر کے ’’امدادی پیکیج‘‘ کی مزید اقساط دینے سے بھی انکار کر سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے مطلوبہ رقم نہ ملی تو شوکت ترین کے بنائے بجٹ کا کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments