معید یوسف کا بیان: ’پاک امریکہ تعلقات میں ٹیلیفون کال کو بڑا مسئلہ بنا دینا غیر سمجھداری ہے‘

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


معید یوسف
'امریکہ کے صدر نے اتنے اہم ملک کے وزیر اعظم سے بات نہیں کی جس کے بارے میں امریکہ خود کہتا ہے کہ افغانستان میں کچھ معاملات بنانے یا بگاڑنے کا اہل ہے۔ ہم ان اشاروں کو سمجھنے کی کوشش رہے ہیں۔'
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن پاکستانی قیادت کو نظر انداز کرتے رہے تو پاکستان کے پاس اور بھی آپشن ہیں۔

تاہم پاکستان میں وزارت خارجہ کے سابق ترجمان اور انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے معید یوسف کے بیان کے بارے میں کہا ہے کہ ایسے بیانات دینے سے اجتناب برتنا چاہیے تھا بلکہ ایسی باتوں کو عوامی سطح پر زیر بحث بھی نہیں لانا چاہیے تھا۔

اُدھر امریکی انتظامہ کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن ابھی تک متعدد عالمی رہنماؤں سے ذاتی طور پر بات نہیں کر پائے ہیں۔ وہ صحیح وقت آنے پر خود وزیر اعظم خان سے بات کریں گے۔‘

امریکہ میں اخبار ‘فنانشل ٹائمز’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر نے اتنے اہم ملک (پاکستان) کے وزیر اعظم سے بات نہیں کی جس کے بارے میں خود امریکا کہتا ہے کہ وہ (پاکستان) افغانستان میں کچھ معاملات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘ہم اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔’

قومی سلامتی کے مشیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں طالبان تیزی سے اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف افغان حکومت پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر رہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی حکام کے بقول امریکہ پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا برتاؤ کر رہا ہے۔

اس امر کے باوجود کہ پاکستان نے طالبان رہنماؤں کو امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے لیے رضامند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی باہمی تعلقات بڑھانے کی عمران خان کی کوششوں میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے۔

‘ٹیلیفون کال کو پاک امریکہ تعلقات میں بڑا مسئلہ بنا دینا غیر سمجھداری ہے’

وزارت خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط سے جب پوچھا گیا کہ معید یوسف نے دوسرے ’آپشن‘ یا دوسرے راستوں کا ذکر کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تو معید یوسف خود بہتر بتا سکتے ہیں صرف ٹیلیفون کال نہ آنے پر اس طرح کے بیانات دینا مناسب نہیں تھا۔

عمران خان ، جو بائیڈن

پاکستان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار امریکی صدر جو بائیڈن سے فون کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے بات نہیں ہو سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹیلیفون کال کو پاکستان امریکہ کے تعلقات میں ایک بڑا مسئلہ بنا دینا غیر سمجھداری کی بات ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ امریکہ میں کوئی ایک لاکھ پاکستانی رہتے ہیں اور وہ لوگ دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کا تجارتی پارٹنر ہے اور امریکہ نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘معید یوسف کے بیان کے مطابق امریکہ نہیں تو اور۔۔۔ اگر ان کا مطلب چین سے ہے تو یہ کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ چین کے ساتھ پاکستان کے اپنے سٹریٹجک تعلقات ہیں اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات ہیں اور ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں جس سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے۔’

سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاہ کوئی اور ایسے آپشن نہیں ہیں جو گیم چینجر ہو سکیں گے۔

افغانستان

معید یوسف کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان موجود حالات میں اہمیت چاہتا ہے کیونکہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے معاہدے کے بعد پاکستان کی اہمیت میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے:پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق چیئرمین پروفیسر ریٹائرڈ اعجاز خان

’پاکستان اس وقت افغانستان میں بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ افغان حکومت اور نہ ہی طالبان پاکستان پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے موجودہ حالات میں چین کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ اور پاکستان بھی چین پر بھروسہ کر رہا ہے اور افغانستان میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ثالثی کے لیے چین کے کردار ادا کرنے پر زور دے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ چونکہ کچھ طالبان رہنماؤں کے خاندان پاکستان میں رہتے ہیں اس لیے پاکستان اس چیز کو کبھی کبھار استعمال کر سکتا ہے۔

پاکستان موجودہ حالات میں اہمیت چاہتا ہے، امریکہ اہمیت نہیں دے رہا

اس بارے میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق چیئرمین پروفیسر ریٹائرڈ اعجاز خان نے کہا کہ معید یوسف کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان موجود حالات میں اہمیت چاہتا ہے کیونکہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے معاہدے کے بعد پاکستان کی اہمیت میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے لیکن اب پاکستان کے پاس ان تعلقات میں کم مواقع ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘چین اور پاکستان کے تعلقات اگرچہ بہتر ہیں لیکن ماضی کی نسبت ان میں گرمجوشی میں کمی واقع ہوئی ہے اور سی پیک کے معاملے میں بھی زیادہ گرمجوشی نظر نہیں آ رہی اور چین حالیہ سکیورٹی صورتحال میں زیادہ اختیار چاہتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ معید یوسف کے بیان سے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ اگر امریکہ توجہ نہیں دے گا تو پاکستان چین سے زیادہ قریب ہو جائے گا تو یہ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے کے بعد پاکستان افغانستان میں مذاکرات اور جامع حکومت کے قیام کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکا حالانکہ پاکستان نے طالبان کے علاوہ دیگر افغان رہنماؤں سے بات چیت کی اور اس کے لیے عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کو بلایا لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جو پاکستان چاہتا ہے اور ماضی میں جیسے امریکہ پاکستان کو توجہ دیتا تھا جیسے امریکی حکام جب انڈیا جاتے تو پاکستان کا دورہ بھی کرتے تھے، اسی طرح ’کلائمیٹ سمٹ‘ میں بھی پاکستان کو نہیں بلایا گیا جبکہ اب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کوئی ٹیلیفونک رابطہ نہیں کیا اس لیے ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو توجہ نہیں دے رہا۔

عمران خان

انھوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے درمیان سرد مہری پائی جاتی ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے افغانستان اور خطے میں تعلقات کے حوالے سے سودے بازی ہو رہی ہے اب اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں گے؟

امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟

لشکر گاہ کی گلیوں میں لاشیں، افغان فوج اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری

افغانستان میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟

معید یوسف نے مزید کیا کہا؟

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا مزید کہنا تھا ‘امریکہ کے صدر نے اتنے اہم ملک کے وزیر اعظم سے بات نہیں کی جس کے بارے میں امریکہ خود کہتا ہے کہ افغانستان میں کچھ معاملات بنانے یا بگاڑنے کا اہل ہے۔ ہم ان اشاروں کو سمجھنے کی کوشش رہے ہیں۔’

پاکستان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار امریکی صدر جو بائیڈن سے فون کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے بات نہیں ہو سکی۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ہر بار بتایا گیا ہے کہ [فون کال] کی جائے گی، یہ تکنیکی وجوہات ہیں یا کچھ بھی۔۔۔ لیکن سچ کہوں تو لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔’انھوں نے مزید کہا ‘اگر کوئی فون کال ایک رعایت ہے، اگر سکیورٹی تعلقات ایک رعایت ہیں تو پاکستان کے پاس دیگر ’آپشن‘ یا امکانات موجود ہیں۔’

تاہم معید یوسف نے ان امکانات کی تفصیل نہیں بتائی۔

اُدھر امریکی انتظامہ کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن ابھی تک متعدد عالمی رہنماؤں سے ذاتی طور پر بات نہیں کر پائے ہیں۔ وہ صحیح وقت آنے پر خود وزیر اعظم خان سے بات کریں گے۔‘

معید یوسف افغانستان کے بحران پر بات چیت کے لیے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی، آئی ایس آئی، کے سربراہ کے ہمراہ امریکہ میں موجود ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں معاملات بگاڑ دیے ہیں اور واشنگٹن نے اسلام آباد کو ’کرائے کے فوجیوں‘ کی طرح استعمال کیا۔

تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ واشنگٹن، افغانستان میں امن کی بحالی میں پاکستان کے اہم کردار کو تسلیم کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ یہ کردار ادا کرتا رہے۔

واشنگٹن میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکہ محکمہ خارجہ کے اہلکار نیڈ پرائس نے کہا کہ نہ صرف امریکہ بلکہ ہمارے بہت سے بین الاقوامی شراکت دار اور خطے کے بہت سے ممالک بھی پاکستان سے اس تعاون کے خواہاں ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس حوالے سے کام کرتے رہیں گے اور اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ قریبی بات چیت جاری رکھیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp