عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما عبیداللہ خان کاسی کے اغوا کے بعد تشدد زدہ لاش برآمد، اے این پی کا احتجاج

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ملک عبیداللہ خان کاسی کی لاش ضلع کوئٹہ سے متصل پشین کے علاقے سے برآمد ہوئی ہے اور ان کے طبی معائنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اغوا کاروں نے انھیں ’بدترین تشدد‘ کا نشانہ بنایا تھا۔

ملک عبید اللہ خان کو رواں برس 26 جون کو ان کے آبائی علاقے کچلاک سے اغوا کیا گیا تھا اور نامعلوم افراد نے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو ضلع کوئٹہ سے متصل پشین کے علاقے سرانان میں پھینک دیا تھا۔

کوئٹہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ملک عبیداللہ کاسی کو 26 جون کو اغوا کیا گیا تھا اور جمعرات کو ان کی لاش ضلع پشین سے برآمد ہوئی ہے۔

سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بتایا ہے کہ ’ملک عبیداللہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ بھوکا اور پیاسا بھی رکھا گیا لیکن ان کی موت تشدد سے ہوئی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’تشدد کے لیے ہتھوڑی، کیل لگے ڈنڈے اور اس طرح کے دیگر آلات کا استعمال کیا گیا‘۔

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ تشدد کے اثرات ’جسم کے اندرونی اعضا پر بھی تھے۔‘

مغوی رہنما کے ماموں اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما یوسف خان کاکڑ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’اغواکاروں کی جانب سے تاوان کے لیے ایک مرتبہ کال آئی لیکن یہ معاملہ اغوا برائے تاوان کا نہیں لگتا۔‘

ایک سال کے دوران بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے یہ دوسرے رہنما ہیں جن کی اغوا کے بعد لاش برآمد ہوئی ہے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے جماعت کے رہنما کے قتل پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘مظلوم اقوام کے حق کی جنگ میں ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔‘

اس کے علاوہ کوئٹہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے قتل کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔

ملک عبیداللہ خان کاسی کون تھے؟

ملک عبیداللہ خان کا تعلق ضلع کوئٹہ کے معروف قبیلے کاسی سے تھا اور وہ کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے کچلاک میں کلی کتیر کے رہائشی تھے۔

وہ زمانہ طالب علمی سے سیاسی جدوجہد سے وابستہ رہے تھے اور تعلیم کے دوران ان کی وابستگی عوامی نیشنل پارٹی کے سٹوڈنٹ وِنگ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے رہی اور انھوں نے بعد میں عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا تھا۔

وہ عوامی نیشنل پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہے تاہم اس وقت وہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن تھے۔

ڈاکٹروں کا کیا کہنا ہے؟

سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بتایا کہ لاش کے دونوں ہاتھ اور پاﺅں ہتھ کھڑی سے بندھے ہوئے تھے۔ ‘ان کے ہاتھ تو بہت زیادہ سخت باندھے ہوئے تھے اور انھیں کسی خراب جگہ پر رکھا گیا تھا، جیسے گودام وغیرہ۔‘

پولیس سرجن کے مطابق مقتول پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا تھا۔ ‘تشدد کے لیے ہتھوڑی، کیل لگے ڈنڈے اور اس طرح کے دیگر آلات کا استعمال کیا گیا جن کو ہم میڈیکل کی زبان میں کند آلات کہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تشدد صرف جسم کے باہر نہیں تھا بلکہ اس کے اثرات جسم کے اندرونی اعضا پر بھی تھے۔ تشدد سے ان کا سینہ اور پیپھڑے بھی متاثر ہوئے تھے بلکہ جب ہم نے ان کے سر کو کھولا تو سر کے اندر بھی تشدد کے نشانات تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ تشدد کے علاوہ مقتول کو بھوکا اور پیاسا بھی رکھا گیا اور کھانے کے لیے صرف اتنا کچھ دیا جاتا رہا کہ وہ بس زندہ رہ سکیں لیکن ان کی ’موت تشدد کی وجہ سے ہوئی‘۔

انھوں نے بتایا کہ ’لاش کی برآمدگی سے موت اندازاً 12 گھنٹے پہلے ہوئی تھی۔‘

اے این پی کے رہنما کو کہاں سے اغوا کیا گیا؟

ملک عبید اللہ کو 26 جون کو نامعلوم افراد نے ان کے آبائی علاقے کلی کتیر سے اغوا کیا تھا۔

ان کے ماموں محمد یوسف خان کاکڑ نے سول ہسپتال کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ شروع میں 15 لاکھ ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ‘ملک عبید اللہ کے اغوا کے دو روز بعد ان ہی کے فون سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی فون نہیں آیا۔’

محمد یوسف کاکڑ نے کہا کہ ‘ان کے بھانجے کا اغوا تاوان کے لیے نہیں تھا کیونکہ اغوا کار پیسے مانگتا ہے لیکن ملک عبیداللہ کاسی کو تو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملک عبید اللہ کی بازیابی کے لیے پولیس کی جانب سے تین دن کی مہلت مانگی گئی تھی، ہم نے مہلت دی لیکن 40 روز گزر گئے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘

انھوں نے سوال کیا کہ ‘جب پشتون اور بلوچ اغوا ہوتے ہیں تو ان کی بازیابی کے لیے ریاست کیوں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔’

ان کے اغوا کے خلاف اور محفوظ بازیابی کے لیے ناصرف عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا بلکہ کچلاک میں احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا گیا تھا۔

احتجاج

رواں سال کے دوران جو لوگ بلوچستان سے اغوا ہوئے ان میں اے این پی کے رہنما ملک عبیداللہ کے اغوا کا واقعہ اس نوعیت کے ہائی پروفائل کیسز میں سے ہے۔

چونکہ عوامی نیشنل پارٹی تیسری بڑی جماعت کی حیثیت سے بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اس لیے ان کی بازیابی کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے لیکن ان کی محفوظ بازیابی ممکن نہیں ہوئی بلکہ اب ان کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔

رواں سال عوامی نیشنل پارٹی کے کسی رہنما کی اغوا کے بعد لاش کی برآمد گی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اے این پی بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

اسد خان اچکزئی کو 20 ستمبر 2020 کو چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے ایئرپورٹ روڈ پولیس کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا۔

پانچ ماہ بعد ان کی لاش کوئٹہ کے علاقے نوحصار میں ایک کنویں سے برآمد کی گئی تھی۔ اسد خان اچکزئی کے اغوا اور قتل کے الزام میں لیویز فورس کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کی لاش کہاں سے برآمد ہوئی؟

پشین میں لیویز فورس کے ہیڈکوارٹر کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کی لاش پشین شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سرانان کے علاقے سے ملی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان: سینیٹر عثمان کاکڑ کی تدفین، سیاسی رہنماؤں کا اصرار کہ موت طبعی نہیں تھی

رقم چھیننے کی واردات سے اے این پی رہنما کے مبینہ قاتل کا سراغ کیسے ملا؟

بلوچستان میں مزدوروں کا قتل: ’اس کا خیال رکھنا، یہ ہمارا واحد سہارا ہے‘

کوئٹہ: جے یو آئی کوئٹہ کے سرپرستِ اعلیٰ قتل

انھوں نے بتایا کہ وہاں لاش کی موجودگی کی اطلاع پر اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں لیویز فورس کے اہلکار گئے اور لاش کو پہلے سول ہسپتال پشین منتقل کیا گیا اور بعد میں پوسٹ مارٹم کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔

ان کی لاش کی جو تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

احتجاج

ملک عبید اللہ کے قتل کے بارے میں حکام اور پولیس کا کیا کہنا ہے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

انگریزی زبان میں کوئٹہ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے اس کے مطابق ملک عبیداللہ کاسی کو 26 جون کو اغوا کیا گیا اور جمعرات کو ان کی لاش ضلع پشین سے برآمد ہوئی ہے۔

بیان کے مطابق سائنسی شواہد کی بنیاد پر ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے اور پولیس اس سفاکانہ واقعے کے ملزمان کا پیچھا کر رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے ملزمان کے ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی کا رد عمل

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس قسم کے ہتھکنڈوں سے ہم اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ خدائی خدمتگار تنظیم سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی تک آج بھی جاری ہے۔‘

انھوں نے ایک ٹویٹ میں مزید کہا کہ ‘دہشتگردی، دھونس، انتہا پسندی اور امن مخالف بیانیوں کی مخالفت کرنا اگر جرم ہے، تو یہ جرم کرتے رہیں گے‘۔

’ملک عبیداللہ کاسی سے پہلے صوبائی ترجمان اسد خان اچکزئی کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ آج ہمیں بلوچستان سے ایک اور لاش دی گئی۔ مظلوم اقوام کے حق کی جنگ میں ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔‘

احتجاج

کوئٹہ شہر میں اس واقعے کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے شہر کی مختلف شاہراہوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کیا ہے

اسفند یار ولی نے کہا کہ ’ریاست بلوچستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔

’ریاست جواب دے اگر اے این پی کے ساتھیوں کے تحفظ میں ناکام ہے تو ہم اپنے تحفظ میں آزاد ہوں گے، پھر کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ 26 جون سے لاپتہ ملک عبیداللہ کاسی کے کیس پر ’ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا، بلکہ ان کی لاش حوالے کی گئی‘۔

انھوں نے کہا کہ ’اسد خان اچکزئی یا آج ملک عبیداللہ کاسی کے قتل کے واقعے کی مکمل تحقیقات نہیں ہوئیں۔ اے این پی بلوچستان کی قیادت اور ملک عبیداللہ کاسی کے خاندان کا فیصلہ ہمارا فیصلہ ہو گا۔‘

سول ہسپتال کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا۔

کوئٹہ شہر میں اس واقعے کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے شہر کی مختلف شاہراہوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کیا۔

مظاہرین نے پارٹی کے رہنما کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp