کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟


بحیثیت مرد یا عورت نہیں بلکہ بحیثیت انسان اگر کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں تو یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ ہم میں سے نوے فیصد لوگوں کا جواب یہی ہو گا کہ ہاں ہم آزاد ہیں کیونکہ ہم تو محض ایک آزاد ملک کا شہری ہونے کے ناتے خود کو آزاد سمجھتے ہیں لیکن کڑوی حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہونے کے باوجود جو کہ کئی برس پہلے آزادی کے نام پر بنا تھا، قید ہیں۔

کیا صرف ایک آزاد ملک کا شہری ہونے سے ہم آزاد ہو جاتے ہیں؟ ایسا سوچنا اور کہنا سراسر غلط ہے۔ آزادی تو اپنے دل اور دماغ کو آزاد سمجھنے اور خود کو محفوظ سمجھنے میں ہے۔ ہم تو ایک آزاد ملک کے شہری ہونے کے باوجود معاشرے کی بنائی ہوئی زنجیروں میں قید ہیں۔ یہ وہ زنجیریں ہیں جن کو توڑنے کی کوشش میں ہمیں پتا نہیں کتنے برس لگ جائیں اور پہ بھی ممکن ہے کہ ہماری بھرپور کوشش کے باوجود بھی ہم یہ زنجیریں توڑنے میں ناکام رہیں۔ یہ وہ زنجیریں ہیں جنھوں نے معاشرے کے لوگوں خواہ وہ مرد ہو یا عورت دونوں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ یہ وہ زنجیریں ہیں جو کسی کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں تو کسی کا حوصلہ توڑتی ہیں اور کسی کو تو حرام موت مرنے پر ہی مجبور کر دیتی ہیں۔

معاشرے کی گھسی پٹی روایات صدیوں سے چلتی آ رہی ہیں اور ان روایات کو معاشرے کے ہی لوگوں نے اتنا پختہ کر دیا ہے کہ انھیں زنجیریں کہنا غلط نہ ہوگا۔ یہ روایات مرد اور عورت دونوں کے لیے مختلف ضرور ہیں لیکن دونوں کو ایک ہی انداز میں جکڑتی ہیں۔

ایک عورت یا لڑکی کے لیے یہ روایات تب زنجیریں بنتی ہیں جب اس کے دل میں آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بل بوتے پر کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے اور معاشرے کے لوگ ان روایات کا سہارا لیتے ہوئے اس کی لگن کو خود سری اور آزاد خیالی کا نام دے دیتے ہیں اور اس کے حوصلے کو توڑ دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تعلیم نے اسے خود سر بنا دیا ہے اور اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ایک عورت یا لڑکی ہونے کی بدولت اس کی زندگی کا مقصد صرف شادی یا گھر داری تک ہی محدود ہونا چاہیے۔ یہ الفاظ نہ صرف اس کا حوصلہ توڑتے ہیں بلکہ اس کی لگن اور خوابوں کو بھی کرچی کرچی کر دیتے ہیں۔

اسی طرح یہ زنجیریں مردوں کا بھی حوصلہ توڑتی ہیں جب ایک مرد محنت کرنے کی ٹھان لیتا اور کم آمدنی پر بھی شکر گزار ہوتا ہے اور دل میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ اپنی محنت اور لگن کی بدولت ایک دن کامیابی ضرور حاصل کرے گا تبھی معاشرے کے لوگ اس کم آمدنی پر تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ سلسلہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے حوصلے کو اتنی بری طرح کچل دیا جاتا ہے کہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے اور کئی تو معاشرے کی ان زنجیروں کی سختی برداشت ہی نہیں کر پاتے اور اپنی زندگی پر حرام موت کو ترجیح دے دیتے ہیں۔

یہ تو چند مثالیں تھیں معاشرے کی یہ بے تکی روایات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ انھیں مکمل بیان کرنا بھی ممکن نہیں۔ جب انسان کا دل اور دماغ ہی قید ہو تو کیا اسے آزاد کہنا غلط نہ ہوگا۔ اور دکھ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ معاشرے کی یہ روایات جو اب زنجیریں بن چکی ہیں انھیں بنایا بھی ہم نے خود ہی ہے اور اتنا پختہ کر دیا ہے کہ اب شاید ہی ہم ان روایات کے حصار سے نکل کر آزادی کی زندگی گزار سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments