تعلیم کی چھٹی اور دوسری طرف سنگل نصاب میں ہندو مسلم نفرت


اس کرونا کی وبا نے کئی معجزے جیسے لوگ ہم سے چھینے۔ گلیوں، محلوں اور شہروں نے سناٹے کی چادر پہن لی پر نہ تو پھل پھول، پودے، پرندے، ندیاں اور پورا ماحول آلودگی سے کافی حد تک پاک و صاف رہا ہے۔ بڑھاپا، حالت کی کشیدگی، پیسے کی تنگی یا کرونا کی یکجا لہریں بہت ساری بہتی ندیوں کو موت کے خاموش سمندر میں لے ڈوبی ہیں اور روانی دن بہ دن گھری ہوتی جا رہی ہے۔ نہ جانے کتنے حسین پودے، خوشبودار گل بننے سے پہلے مرجھا جائیں گے اور نہ جانے کتنے خوشبودار گلوں کی کو ملتا گل ہو جائے گی۔ پر یہ یقیں ہے دھرتی کے جنگل میں جتنے بھی پرندے جیوت بچیں گے ان کی عمریں دراز ہوں گی۔

کرونا کی وبا جیسے ہی شروع ہوئی، ہم جیسے کئی گناہ گار لوگوں نے درویشی کی چادر پہن لی۔ معاشیات کی گھنٹی بجنے کے بجائے سانسوں کی گھنٹی کو اہمیت اور اولیت دی۔ وبا کے ڈر نے کئی لوگوں کو دیوان اور سخی بنا دیا اور دان و خیرات میں لگا دیا۔ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ، ہاتھ دھو دھو کے جیون کی ریکھاؤں کو نئے سر سے تراشنے لگے۔ دوا اور دعا میں جب اٹر دکھائی نہ دینے لگا تو بات آخری صدیوں پرانی پرمپرا، ”ہاتھ جوڑنے“ پر پہنچی۔

اپنی اور اوروں کی جانیں بچانے کے چکر میں دور سے ہی ہاتھ جوڑنے لگے۔ کالی چائے کے پتوں کو پیسنے سے لے کر انگور کے پانے کے قطرے پینے تک کئی نیم گرم ٹوٹکے ماحول میں سرگوشیاں دیتے رہے۔ کئی جگتیں بنی، ٹک ٹاک کے داناؤں سے لے کر فیس بک کے بادشاہوں نے مزاح وڈیوز اور تحریریں بنا کے سوشل میڈیا پر موج مستی کی۔ پر کرونا کا درد تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

تتلیوں سے چنچل اور یادوں سے تیز بچوں نے چھٹی کے کچھ دن تو مزے لیے پر دن، مہینے جب سالوں میں گزرے اور باہر جانا بھی بند ہو گیا پھر اداس آنکھیں اسکول کے مہکتے دنوں کی یاد میں ساون کی چھڑیاں بن کر خوب برسنے لگی پر تعلیم کی تو چھٹی ہو گئی تھی۔

تعلیم کی چھٹی ہونا ویسے بھی کوئی نئی بات نہیں۔ جہاں آدھے سے بھی زیادہ اسکول جانے والی عمر کے ننھے پھول جبری مشقت، غربت، اسکول یا استاد نہ ہونا یا اور کسی وجہ سے پڑھنے سے قاصر ہوں تو وہاں تعلیم کی بچوں سے زیادہ چھٹیاں ہوں گی۔

پاکستان میں تعلیم کی لیبارٹری میں سدھار کے لیے دن بہ دن نئے سائنسدان بھرتی کیے جاتے ہیں۔ جدید دور کے ڈجیٹل ایج میں جب دنیا جدید آلات، اسپیس اور اسٹیم کی تعلیم کی بات کر رہی ہے اور ہر ترقی یافتہ ملک پاکستان کی بجٹ سے بھی زیادہ اس پر انویسٹ کر رہا ہے اور ہم یہاں اسکول کی چار دیواری، فرنیچر، استاد کے لیے رو رہے ہیں۔ ہمارا نصاب اس کی کیا بات کہیں اس کی تو اس قدر مہربانیاں ہیں کہ ابھی تک ریڈیو کی ایجاد میں پھنسے ہوئے ہیں۔

‏متنازعہ نصاب کو ہم پہلے ہی جھیل رہے ہیں اوپر سے ایس این سی (سنگل نیشنل کریکلم ) میں جو ہندو اور مسلم کی درمیان نفرت دکھائی گئی وہ مزید کشیدگیوں اور دوریوں کو پیدا کرے گی۔ گرفتاریاں، پرچے کاٹنا، سزائیں ان سے کچھ نہیں ہوگا ذہنیت بدلنی پڑے گی کہ ایک انسان دوسرے کا بھائی ہوتا ہے۔ ہم نے تو ویسے ہی ہمارے بڑوں نے بھی جو کتابیں پڑھی وہ نئی نسل پڑھ رہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا اس کو نئی نسل کہیں یا پرانی۔

تین مہینے پہلے سندھ کے صاحب۔ تعلیم (اب جناب تعلیم میں نہیں ) نے گفتگو میں مزے کی بات سنائی ؛ ”کرونا کی وجہ سے اسکولز بند ہیں تو ہم نے مشہور چینل سے ایگریمینٹ کیا وہ آن لائن کلاسز چلائیں گے۔ موقعے ملتے ہی جب میں نے کہا حضور

“Girl ‘s Education and COVID. 19 in Pakistan”

کی ریسرچ سروے کی رپورٹ کے مطابق صرف 20 پرسینٹ بچے ٹیلیویژن دیکھتے ہیں، تو صاحب طنزیہ مسکرائے اور کہنے لگے، اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں۔

اس طرح اسکول کے ایک بچے سے جب میں نے پوچھا ؛ بیٹے کئی دنوں سے اسکول نہیں گئے ہو، کچھ یاد ہے یا سب بھول گئے؟ بچہ بڑا شرارتی تھا، پر اعتماد لہجے میں بولا ؛ کچھ دن پہلے ایک ہفتہ اسکول کھلا تھا، میری تو یادداشت ویسے بھی کمزور ہے پر پڑھاتے ہوئے ماسٹر جی بھی ہچکچا رہے تھے، دوست بول رہے تھے اتنی چھٹیاں ہوئی ماسٹر جی بھی سب بھول گئے اب ان کے لیے کوئی اور ماسٹر رکھنا پڑے گا۔ بچے کی بات میں دس، بیس نہیں پر پچاس کلو سے زائد وزن ہے کہ تقریباً دو سالوں سے اسکول بند ہیں اب اساتذہ بھی بھول گئے ہیں اسے بھی پڑھنا پڑے گا۔

سندھ میں سرکاری حساب سے تو 42 لاکھ بچے اسکولز سے باہر ہیں پر غیر سرکاری ادارے کے حساب سے 64 لاکھ بچوں نے اسکول نہیں دیکھا ہے۔ 40 ہزار سے زائد اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، دن بہ دن رٹائرمنٹ کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور اسکولز بند ہو رہے ہیں۔ پورے سندھ میں سائنس ٹیچر صرف 10 پرسینٹ ہونے کی وجہ سے میتھمیٹکس اور سائنس میں ویسے بھی بچوں کے بہت کم نمبر ہیں، سائنس اور کمپیوٹر لیب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کا تو بہت ہی خستہ حال ہے، صرف 24 سینکڑوں گرلز اسکولز ہیں۔

کرونا کی وجہ سے ”ڈراپ آؤٹ“ خاص کر کے لڑکیوں کا ڈراپ آؤٹ ہونا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ساری اس رام کہانی کا حاصل مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے پر اتنے سالوں سے کئی تجربات کرنے کے باوجود ”درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کی ہی کہانی سنائی دے رہی ہے۔ تعلیم کی چھٹی کرنے میں سب سے اول کردار کمیونٹی کا ہے۔ اسکول محلے میں کھلے گا، استاد رشتے دار ہوگا بس پھر ہم اور تم۔ اس کے بعد سیاسی مہربانیوں نے بھی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا ہے۔ پروفیسر سلمان حیدر والی بات کہ ”پچھلے 75 سالوں میں آٹھ کو ایٹ کیا، بس یہ کام کیا، اسکول کے سوا ہر کام کیا اور تعلیم کی چھٹی ہوگی“ ۔

خیر باتوں کے پتنگ بہت اڑائے اب تھوڑا حل کی کھڑکی میں گر جھانکیں گے تو اینتھونی ہوپ کے ناول پرزنر آف زینڈا والا سین کہ اصلی بادشاہ کو چھڑانے کے لیے قلعے تک کیسے پہنچیں ؛ یا تو کوئی معجزہ ہو جو قطعی نظر نہیں آ رہا دوسری بات ہے محنت۔ کرونا کی وبا کے بعد ہاتھ جوڑیں اور اس کو اور چوڑے کریں۔ دھرنا دیں کہ اسکول نہیں ہے، پریس کانفرنس کریں، اساتذہ یا سہولیات کا فقدان ہیں، بند اسکولز کی وڈیو بنائیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا منتخب نمائندگان کے پیچھے پڑیں، ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے پاس جائیں جو بھی ہو گر مل جل کے اپنی جواب داری سمجھ کر اپنی نسل کو سدھارنے کی کوشش کریں۔ افسر ، منسٹر آتے جاتے رہیں گے گر ہمارے بچے معیاری تعلیم سے محروم رہے تو سب سے پہلے ہم خود جوابدار ہیں۔ بس تعلیم کی بہتری کی مہم چلائیں، یاد رکھیں کوئی اور نہیں صرف ہم ہی تعلیم کی چھٹی بند کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments