عوامی عدالت میں ریجنل پولیس افسر توجہ حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہے؟


قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق کا 27 واں اجلاس 27 جولائی 2021 ء کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں طلب کیا گیا تھا۔ کمیٹی کا اجلاس چیرمین رانا محمد قاسم کی صدارت میں ہو رہا تھا۔ کمیٹی اجلاس میں ارکان قومی اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے پر طلب کیے گئے اعلی حکام پہنچ چکے تھے، کمیٹی ہال بھر چکا تھا، نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ کرسیاں کم پڑنے کی وجہ سے کافی سارے حکام، ان کے ساتھ آنے والے چھوٹے افسران اور صحافی کھڑے تھے۔

کمیٹی کے ارکان قومی اسمبلی ذوالفقار علی دولہا، مہر غلام محمد لالی، نواب و سیر، خرم شہزاد، رائے محمد مرتضی اقبال، میاں محمد شفیق، غلام بی بی، مخدوم محمد باسط احمد سلطان، محمد امجد فاروق خان کھوسہ، علی نواز شاہ، محمد ساجد، چودھری ارمغان سبحانی، محسن نواز رانجھا، رانا ثنا االلہ خان، محمد جنید انور چودھری، سید عمران احمد شاہ، سید مرتضی محمود، پیر سید فضل علی شاہ جیلانی، سید غلام مصطفے شاہ، مس شگفتہ جمانی، علی وزیر اور وزیر برائے پارلیمانی امور کے لئے نشستیں مختص تھیں۔ اور ان کا کمیٹی روم میں آمد کا سلسلہ جاری تھا۔

ادھر وہ ارکان اسمبلی بھی کمیٹی روم میں آرہے تھے، جن کا استحقاق مجروح ہوا تھا اور انہوں نے استحقاق کمیٹی سے رجوع کیا تھا۔ ان ارکان قومی اسمبلی میں فواد چودھری، محمد اسلم خان، علی نواز اعوان، رمیشں لال، علی گوہر خان، فیض اللہ کموکا، غوث بخش خان مہر، کشور زہرا، جواد حسین، سردار ریاض محمود خان مزاری اور احسان الرحمان مزاری شامل تھے۔ رکن قومی اسمبلی فواد چودھری کا استحقاق مجروح کرنے پر سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات، سیکرٹری داخلہ سے لے کر چیرمین پیمرا اور بول ٹی وی کے مالک کو بلایا گیا تھا۔

ادھر رکن قومی اسمبلی اسلم خان کا استحقاق مجروح ہونے پر سیکرٹری داخلہ، حکومت پاکستان سے لے کر انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد، انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب، لاہور، انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کراچی، انسپکٹر جنرل پولیس خبیر پختون خواہ، پشاور، انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان کوئٹہ اور سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب، سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ، سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ خبیر پختون خواہ اور سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کو طلب کیا گیا تھا۔

رکن قومی اسمبلی علی نواز کا استحقاق مجروح ہونے پر سیکرٹری وزارت ہیلتھ، گورنمنٹ آف پاکستان، ڈی جی ہیلتھ، ڈائریکٹر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کو طلب کیا گیا تھا۔ سیکرٹری وزارت فنانس و ریونیو، گورنمنٹ آف پاکستان، صدر زرعی ترقیاتی بنک لمیٹڈ، اسلام آباد کو بلایا گیا تھا۔ رکن قومی اسمبلی رمیش لال کا استحقاق مجروح ہونے پر سیکرٹری فنانس ڈیپارٹمنٹ، حکومت سندھ کراچی، عامر ضیا ء ڈپٹی سیکرٹری، فنانس ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ، کراچی کو طلب کیا گیا تھا۔

ادھر رکن قومی اسمبلی محمد ساجد کا استحقاق مجروح ہونے پر انسپکٹر جنرل پولیس کے پی، پشاور، ڈپٹی کمشنر مانسہرہ، ڈی پی او اور مانسہرہ کو طلب کیا گیا تھا۔ رکن قومی اسمبلی علی گوہر خان کا استحقاق مجروح ہونے پر انسپکٹر جنرل پولیس، پنجاب لاہور اور عمران احمر ریجنل پولیس افسر ، راولپنڈی کو جوابدہی کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ رکن قومی اسمبلی فیاض احمد کموکا کا استحقاق مجروح ہونے پر سیکرٹری وزارت فنانس و ریونیو، گورنمنٹ آف پاکستان، اسلام آباد، کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس اسلام آباد، رکن قومی اسمبلی کا استحقاق مجروح ہونے پر انسپکٹر جنرل آف پولیس، گورنمنٹ آف سندھ کراچی، ڈی آئی لاڑکانہ، کامران نواز، ایس ایس پی، سکھر اور سادر و لاشاری، ایس ایچ او، پولیس اسٹیشن فوجداری، شکار پور کو طلب کیا گیا تھا۔

رکن قومی اسمبلی کشور زہرا کا استحقاق مجروح ہونے پر سیکرٹری برائے داخلہ حکومت پاکستان، اسلام آباد، چیف سیکرٹری، حکومت سندھ، کراچی او ر انسپکٹر جنرل پولیس، حکومت سندھ کراچی کو طلب کیا گیا تھا۔ رکن قومی اسمبلی جواد حسین کا استحقاق مجروح ہونے پر انسپکٹر جنرل آف پولیس، اسلام آباد، فدا ستی، ایس پی، شمس کالونی، اسلام آباد تک طلب کیا گیا تھا۔ رکن قومی اسمبلی سردار ریاض محمود خان مزاری کا استحقاق مجروح ہونے پر انسپکٹر جنرل پولیس، پنجاب لاہور، ظفر اقبال، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس، ساوتھ پنجاب بہاول پور، ریجنل پولیس افسر فیصل رانا، ڈیرہ غازی خان اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر ، راجن پور کو طلب کیا گیا تھا۔

اور رکن قومی اسمبلی احسان الرحمان کا استحقاق مجروح ہونے پر سیکرٹری وزارت خزانہ انرجی، پاور ڈویژن، گورنمنٹ آف پاکستان، اسلام آباد، نثار احمد گارہی، ایکیئسن، ڈسٹرکٹ کشمور، سندھ سمیت دیگر افسران کو طلب کیا گیا تھا۔ جیسے ہی کمیٹی چیرمین رانا قاسم نون کمیٹی روم پہنچے کارروائی کا آغاز ہوا۔ ارکان اسمبلی جن کا استحقاق مجروح ہوا ہوتا ہے، رانا قاسم نون ترتیب کے ساتھ ان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے استحقاق مجروح ہونے کے بارے میں آگاہ کریں اور پھر جس محکمہ کے متعلق ہوتا ہے، وہ اپنی پوزیشن واضح کرتا ہے کہ معاملہ کیا ہے؟

یوں پھر کمیٹی چیرمین اور ممبران اس صورتحال میں فیصلہ کرتے ہیں کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ اب اگر گیارہ ارکان اسمبلی جن کا استحقاق مجروح ہوا ہے، ان پر بات کروں تو ایک کالم میں بات ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یوں آپ کے سامنے دو ارکان اسمبلی جن کا استحقاق مجروح ہوا تھا، اس پر کمیٹی میں ہونے والی بات چیت رکھتا ہوں کہ ان کا اپنے استحقاق مجروح ہونے کے متعلق کیا موقف تھا۔ رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر جو کہ سینئر پارلیمنٹرین ہیں، ان کو چیرمین کمیٹی رانا قاسم نون نے دعوت دی کہ جی سردار غوث بخش مہر آپ بات کریں تو غوث بخش مہر کا جواب میں کہنا تھا کہ میں سردار نہیں ہوں، اور بات کرنے کی طرف بڑھ گئے ہیں کہ میری بیٹی اور داماد کے گھر پولیس نے ریڈ کیا ہے اور ایسے کارروائی کی گئی کہ جو کہ قابل افسوس ہے۔ میرے خاندان کو پولیس جانتی ہے، لیکن اس کے باوجود ایس ایچ او کی سربراہی میں پولیس ریڈ کیا گیا۔ میرے داماد کو تھانہ لے گئے، گھر میں خواتین تھیں، مجھے پتہ چلا تو میں نے ایس پی سے رابط کیا کہ معاملہ کیا ہے؟ جس کے بعد میرے داماد کو چھوڑ دیا گیا۔ میرے لیے یہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ادھر پولیس کا یہ کہنا تھا کہ وہ ایک کریمنل نوید مہر کے لئے ریڈ ہوا تھا۔ اور گھر کے پتہ میں غلطی ہو گئی، اور ایس ایچ او کو انکوائری کے بعد سزا دے دی گئی ہے

لیکن رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے کہا کہ معاملہ ایس ایچ او تک محدود نہیں ہے۔ ایس ایچ او نے میرے دوستوں کو قرآن اٹھا کر دیا ہے کہ مجھے ایس پی نے حکم دیا تھا۔ اور جب یہی بات جب میں نے ایس پی کو کہی تو اس کا کہنا تھا کہ اس کو اوپر سے کسی سیکرٹری نے کہا تھا لیکن جب میں نے سیکرٹری سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا تھا۔ میں اب یہاں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر وہ شخص کون ہے؟ جس نے میری بیٹی اور داماد کے گھر پر ریڈ کروایا ہے؟ ایس پی اس کا نام بتا دیں کہ اس کو کس نے کہا ہے؟ میں بات ختم کردوں گا لیکن دوسری طرف ایس ایس پی خاموش تھے۔

غوث بخش مہر نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اس ایس ایس پی سے جب انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کراچی نے رپورٹ مانگی تو اس نے لکھ کر بھیجا کہ ایسا واقعہ تو ہوا ہی نہیں ہوا ہے؟ ایک دو ارکان نے ایس ایچ او کی غلطی اور سزا تک معاملے کو محدود رکھنا چاہ تو رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر ناراض ہو گئے اور کہا کہ اگر ایسا آپ میں سے کسی کے ساتھ ہو تو آپ کیا کریں گے؟ آپ کے خاندان پر کوئی پولیس ریڈ کروائے تو آپ کیا کریں گے اور آپ کو کتنی تکلیف ہوگی؟ ہیں۔ مجھے آخر نام تو ملنا چاہیے کہ کس کا فون تھا جس کے کہنے پر پولیس ریڈ کیا گیا تھا؟ کمیٹی چیرمین رانا قاسم نون نے کہا کہ کمیٹی اس بات پر متفق ہے کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ہم انکوائری کریں گے؟ اور جیسے آپ کی تسلی ہوگی، وہ کریں گے۔ ادھر کمیٹی رانا قاسم نون نے آئی جی پولیس سندھ کو ڈائریکشن دی کہ وہ معاملے کی انکوائری کر کے کمیٹی کو آگاہ کریں۔

ادھر رکن قومی اسمبلی ریاض محمود مزاری کو کمیٹی چیرمین رانا قاسم نون نے بولنے کی دعوت دی تو انہوں نے کمیٹی کے سامنے راجن پور میں امن وامان کا معاملہ اٹھایا اور اٹھاتے چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ راجن پور میں حکومت کی عملداری ختم ہو چکی ہے، پولیس بری طرح ناکام ہو چکی ہے؟ تین چار آپریشن ہوئے ہیں لیکن نتیجہ صرف ہے۔ مزاری محمود مزاری کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں جو خرچا آپریشن پر ہوتا ہے، وہ ڈاکووں کو دے دیں، کم ازکم کچھ تو سکون ہوگا۔

میں نے اس بارے میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی آگاہ کیا ہے۔ ان کی پولیس پر الزامات کی ایک لمبی فہرست تھی جو کہ وہ بیان کر رہے تھے۔ دوسری طرف ظفر اقبال ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، ساوتھ پنجاب، بہاول پور، آر پی او ڈیرہ غازی خان فیصل رانا نے ان سنگین الزامات پر کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن سردار محمود خان مزاری کچھ سننے پر تیار نہیں تھے۔ اس کے باوجود آر پی او ڈیرہ غازی خان فیصل رانا نے کہا کہ ہمارے راجن پور میں پولیس آپریشن کے دوران اٹھارہ جوان شہید ہوئے ہیں۔ پھر بھی آر پی او ڈیرہ غازی خان فیصل رانا رکن قومی اسمبلی ریاض محمود مزاری توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے؟ کیوں؟ اس پر اگلے کالم میں بات کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments