کوئٹہ پولیس کا اے این پی رہنما ملک عبداللہ کاسی کے اغوا میں ملوث پانچ افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کا دعویٰ


کوئٹہ پولیس نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ملک عبیداللہ خان کاسی کے اغوا میں ملوث پانچ افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

سنیچر کی شب کوئٹہ پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہلاک ہونے والے پانچوں افراد اپنے فرار ہونے والے شریک ملزم ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔‘

تاہم آزاد ذرائع سے تاحال پولیس کی اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ قبائلی اور سیاسی رہنما ملک عبیداللہ کاسی کو 26جون کو کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک سے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کی تشدد زدہ لاش پانچ اگست کو پشین کے علاقے سرانان سے برآمد کی گئی تھی اور ان کے طبی معائنے کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اغوا کاروں نے انھیں ‘بدترین تشدد’ کا نشانہ بنایا تھا۔

پولیس کے بیان میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

پولیس کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ بیان کے مطابق پولیس نے اے این پی کے رہنما ملک عبیداللہ کاسی کے اغوا کا کیس حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

احتجاج

پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ملک عبید کاسی کے اغوا کا کیس حل کر دیا گیا ہے۔ ملک عبیداللہ کو 26جون کو نامعلوم اغوا کاروں نے رات آٹھ بجے اغوا کیا تھا۔ اغوا کا یہ واقعہ کوئٹہ پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا اور مغوی کی بازیابی اور ملزمان کی نشاندہی کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ ملزمان کی جانب سے تاوان کے لیے کال کی جاتی رہیں تاہم مغوی کو ہلاک کیا کر دیا گیا۔‘

پولیس کا بیان میں مزید کہنا تھا کہ ‘سائنسی تحقیقاتی تیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے پولیس نے چھ اگست کو ایک ملزم جمعہ گل کو گرفتار کیا۔جمعہ گل نے اعتراف جرم کیا اور اے این پی کے رہنما کے اغوا میں شریک اپنے دیگر ساتھیوں کی نشاندہی کی۔‘

کوئٹہ پولیس کے بیان کے مطابق ‘سینیچر کی شب گرفتار ملزم کو ضلع پشین میں ان کے ساتھیوں کی نشاندہی کے لیے لے جایا گیا۔ صدر پولیس پشین کی حدود میں جب ایک باغ میں ملزمان کے کمین گاہ پر پولیس پارٹی پہنچی اور ملزمان کو اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے کہا گیا تو ملزمان نے پولیس پارٹی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ اور جب فائرنگ رکی تو پانچ ملزمان ہلاک پائے گئے۔‘

پولیس کے بیان کے مطابق ’یہ پانچوں مبینہ اغوا کار اپنے چند ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جو رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔‘

کوئٹہ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے ملزمان کا تعلق قلعہ عبداللہ، کچلاک اور پشین سے تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے جس گاڑی میں اے این پی کے رہنما کو اغوا کیا گیا تھا اس کو بھی برآمد کر لیا گیا ہے جبکہ ملزمان سے برآمد ہونے والے اسلحہ کی تفصیل بھی فراہم کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ ایک سال کے دوران بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے یہ دوسرے رہنما ہیں جن کی اغوا کے بعد لاش برآمد ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رقم چھیننے کی واردات سے اے این پی رہنما کے مبینہ قاتل کا سراغ کیسے ملا؟

بلوچستان میں مزدوروں کا قتل: ’اس کا خیال رکھنا، یہ ہمارا واحد سہارا ہے‘

جب تک وزیر اعظم نہیں آئیں گے ہم میتیں نہیں دفنائیں گے‘

ملک عبیداللہ خان کاسی کون تھے؟

ملک عبیداللہ خان کا تعلق ضلع کوئٹہ کے معروف قبیلے کاسی سے تھا اور وہ کوئٹہ شہر کے نواحی علاقے کچلاک میں کلی کتیر کے رہائشی تھے۔

وہ زمانہ طالب علمی سے سیاسی جدوجہد سے وابستہ رہے تھے اور تعلیم کے دوران ان کی وابستگی عوامی نیشنل پارٹی کے سٹوڈنٹ وِنگ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے رہی اور انھوں نے بعد میں عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا تھا۔

وہ عوامی نیشنل پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہے تاہم اس وقت وہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن تھے۔

اے این پی کے رہنما کو کہاں سے اغوا کیا گیا؟

ملک عبید اللہ کو 26 جون کو نامعلوم افراد نے ان کے آبائی علاقے کلی کتیر سے اغوا کیا تھا۔ ملک عبیداللہ کاسی کے ماموں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنمامحمد یوسف خان کاکڑ نے سول ہسپتال کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ شروع میں 15 لاکھ ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

’ملک عبید اللہ کے اغوا کے دو روز بعد ان ہی کے فون سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی فون نہیں آیا۔‘

محمد یوسف کاکڑ کا کہنا تھا کہ ‘ان کے بھانجے کا اغوا تاوان کے لیے نہیں تھا کیونکہ اغوا کار پیسے مانگتا ہے لیکن ملک عبیداللہ کاسی کو تو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘

رواں سال کے دوران جو لوگ بلوچستان سے اغوا ہوئے ان میں اے این پی کے رہنما ملک عبیداللہ کے اغوا کا واقعہ اس نوعیت کے ہائی پروفائل کیسز میں سے ایک ہے۔

چونکہ عوامی نیشنل پارٹی تیسری بڑی جماعت کی حیثیت سے بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اس لیے ان کی بازیابی کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے لیکن ان کی محفوظ بازیابی ممکن نہیں ہوئی بلکہ اب ان کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے جماعت کے رہنما کے قتل پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مظلوم اقوام کے حق کی جنگ میں ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔‘

رواں سال عوامی نیشنل پارٹی کے کسی رہنما کی اغوا کے بعد لاش کی برآمد گی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اے این پی بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

اسد خان اچکزئی کو 20 ستمبر 2020 کو چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے ایئرپورٹ روڈ پولیس کی حدود سے اغوا کیا گیا تھا۔

پانچ ماہ بعد ان کی لاش کوئٹہ کے علاقے نوحصار میں ایک کنویں سے برآمد کی گئی تھی۔ اسد خان اچکزئی کے اغوا اور قتل کے الزام میں لیویز فورس کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp