عقیدہ یا آرا مشین


“آپ کس فرقے کے پیروکار ہے؟” سوال کرنے کے بعد اس نے گردن نیچے کی اور کتاب میں منہمک ہو گیا۔ میں عین اس کے سامنے کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا، ہمارے بیچ صرف ایک چھوٹی سی میزحائل تھی۔

 آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو اس سوال کا پس منظر بتاتا چلوں؛ میری استاد سے پڑھائی کے پہلے ہی دن یہ ڈیل ہو چکی تھی کہ ہم صرف نصاب کے گرد نہیں گھومیں گے بلکہ نصاب و کتاب سے باہر نکل کر معاشرے کی اتار چڑھاؤ اور خاص کر ملکی و غیر ملکی سیاست پر بات کرتے رہیں گے، یہ درج بالا سوال اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ میں واپس اپنی بات پر آتا ہوں۔

 وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ اور خوشگوار شام تھی، تاریکی اردگرد کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی اور مساجد سے اذانوں کی آوازیں گونجنے کو تھی۔ میں سوال سن کر گو کہ ایک لمحے کے لئے متذبذب ضرور ہوا کیونکہ مجھے اس سے اِس قسم کے سوال کی توقع نہیں تھی، مگر جلد ہی اپنے اضطراب پر قابو پا لیا اور اس کے سوال کا یقین کرنے کے لئے پوچھا؛ جناب! آپ کا فرقے سے کیا مراد ہے؟

اس نے گردن اٹھائے بغیر جواب دیا؛ “وہی فرقے جو ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں یعنی بریلوی، دیوبندی، تبلیغی، وہابی وغیرہ”۔ اب مجھ پر اس کا سوال پوری طرح واضح ہو گیا لہذا میں جواب دینے کے لیے مناسب الفاظ پر غور کرنے لگا۔ وہ تاحال کتاب میں کچھ ڈھونڈنے کے لئے سرگرداں تھے۔

میں نے عرض کیا؛ “سر! میں کلمہ توحید کا قائل ہوں اور اسی پر یقین رکھتا ہوں، میں اپنے آپ کو امت محمدی کا ایک ادنی سپاہی خیال کرتا ہوں اور اس فرقہ بندی کو معاشرتی خلیج سمجھتا ہوں جو بھائی کو بھائی سے جدا کر رہا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ میں نے کبھی اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ میں کس فرقے سے تعلق رکھتا ہوں”

 اس کے بعد کمرے میں ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی، یہ سکوت اس وقت ٹوٹا جب میرے استاد نے پہلی مرتبہ گردن اٹھائی۔ میں نے ان کا ردعمل جاننے کے لیے ان کے چہرے پر نظریں گھاڑ لی۔ اس نے زیر لب ایک دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ میرے جواب کا استقبال کیا اور یوں گویا ہوئے “معاذ! فی زمانہ آپ جیسی سوچ رکھنے والوں کا معاشرے میں شدید فقدان ہے۔ افسوس کہ مجھے یہ اعتراف کرنا پڑا مگر یہی ایک تلخ حقیقت ہے۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اور جوانی کی پھاٹک پر قدم رکھا ہے، میں نے اس عرصے میں سوال جواب کہ جتنے سیشنز اور مذاکروں و مباحثوں کے جتنے نظارے دیکھے ہیں ان سے میری آنکھیں بدظن اور کان پک چکے ہیں۔ اگر آپ بھی میری طرح پاکستانی معاشرے میں پروان چڑھ چکے ہیں تو یقیناً آپ کا بھی قریب قریب یہی حال ہوگا۔

موجودہ حالات کو دیکھ کر کسی بھی ذی شعور آدمی کے رونگٹے کھڑے نہ ہو جائے تو مقام حیرت ہے۔ آپ باہر نکل کر گلی کوچوں سے گزریں، بازار کا چکر لگائیں، کسی بیٹھک میں سستانے کے لئے رکیں، چوک پر کسی کا انتظار کرنے کے لئے چند منٹ قیام کریں یا مسجد میں بغرضِ نماز داخل ہو جائیں، آپ دیکھیں گے کہ جب حاضرین محفل کے موضوعات کا خزانہ جواب دے جاتی ہیں تو مذہبی اور مسلکی بحث اس بزم میں نئی روح پھونک دیتی ہے۔ بلکہ آج کل تو سوشل میڈیا نے کام مزید آسان فرمایا ہے آپ ایک گستاخانہ پوسٹ تیار کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیں اور پھر ڈیٹا بند کر کے آرام سے بیٹھ جائیں آپ کی اس ایک پوسٹ نے سوشل میڈیا میں آگ لگائی ہو گی دوسری طرف اس پر آپ کا کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔

عزیزو! اگر یہ سلسلہ صرف زبانی کلامی باتوں اور محفلوں کو حرارت بخشنے کی حد تک محدود رہتا تو شاید اتنا برا نہ ہوتا لیکن آج ہم ایک دوسرے کو کافر بھی سمجھتے ہیں اور گردن زدنی بھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہم نے اس نفرت کو شہر شہر، محلے محلے اور حتئٰ کہ خاندان خاندان تک پہنچا دیا ہے۔ ہم نے اپنے مساجد اور امام تک تقسیم کر رکھے ہیں اور ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز تک نہیں پڑھتا۔ ہم سب حج پر ایک خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، ایک روضہِ رسول پر حاضری دیتے ہیں مگر ہم جوں ہی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی سے باہر قدم رکھتے ہیں ہم سنی شیعہ اور اس کے بعد دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور وہابی میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کے خلاف سینوں میں دشمنیوں کے الاو جلا رکھے ہیں۔

 ایک مشہور مزاح نگار نے کیا پتے کی بات کہی ہے کہ ہمارے ہاں شیعہ سنیوں کو کافر کہتے ہیں اور سنی شیعوں کو کافر کہتے ہیں بس ایک کافر ہیں جو ہم سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

خالق کائنات نے یہ کام مخلوق کے ذمے تھوڑی ڈالا کہ کون کافر ہے اور کون مسلمان یا کون جہنمی ہے اور کون مغفرت کا حقدار؟ کسی شاعر نے کیا خوبصورت انداز میں اس ماجرے کو قلم بند کیا ہے کہ؛

 منکر بنے یا خود کو سپردِ خدا کرے؟

 خالق ہی سب کرے تو یہ مخلوق کیا کریں؟

ترمذی کی روایت ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا؛ ” وستفترقُ امتی علی ثلَاثہ وسبعین فرقۃ کلھا فی النار الا واحدہ” یعنی کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے اور ایک کے علاوہ سب جہنمی ہوں گے۔ علماء اس حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ یہ سب بڑے فرقے ہوں گے جیسے فرقہ اضالہ، فرقۃ الخوارج، فرقہ جبریہ، فرقۃ القدریہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر ان میں یہ چھوٹے چھوٹے فرقے بھی شامل کیے جائیں تو یہ تعداد سینکڑوں ہو جاے۔ حضور علیہ السلام نے آگے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ ان تمام فرقوں میں نجات وہی پائے گی جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلے گی۔ تو بات کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم نے اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا اور قرآن وحدیث کی راہنمائی لیتے رہے تو کسی کی کیا مجال کہ ہمارے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے صادر فرمائے؟ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی ہمیں فرقہ بندی پر گفتگو کی دعوت دے یا ایسا کرنے کے لئے مجبور کرے تو سلام کر کے آگے بڑھنا چاہیے، اسی میں عافیت اور نجات کی راہ ہے۔

یورپی غیر مسلم ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں بھی شریک ہوتے ہیں، ان میں اخلاقی برائیاں بھی ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ یورپ میں گھوڑوں اور کتوں کے سوا کوئی کسی کا حسب نسب نہیں پوچھتا؟۔ جی ہاں،

 لیکن سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا اللہ نے دنیا کے تمام اچھے کام صرف یورپی لوگوں کے نصیب میں لکھے ہیں؟

 قرآن میں باری تعالیٰ جابجا ہمیں کائنات میں غور و خوض کی دعوت دیتا ہے لیکن شاذ ہی ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی ہے۔ ورنہ بہت جلد ہم پر یہ آشکار ہوتا کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر کہنا کتنی بڑی قیمت چکانے کے مترادف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہمیں بخوبی علم ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے ہم اس کو اپنے مذہب یا فرقے سے پیچھے ہٹانے پر راضی نہیں کر سکتے تو مفت میں اپنے گناہ کے کھاتے میں اضافہ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

ان فرقہ بندیوں، الزامات اور گالم گلوچ سے ہم نے آج تک پایا کچھ نہیں اور کھویا بہت کچھ ہے۔ غلط کام اور فساد کی طرف آپ کے محلے کی مسجد کا امام اور ممبر پر بیٹھا خطیب بھی بلاتا ہے تو اس کی تقلید نہ کی کی جائے۔ خدارا اب بھی سدھر جاؤ اب بھی مہلت ہے ورنہ وہ وقت آنے میں دیر نہیں لگے گی جب اس ملک میں مذہب، فرقہ اور مسلک آرا مشین بن جائے، اور ہم سب ایک دوسرے کو اس آرا مشین پر رکھ کر کاٹ دیں گے۔

معاذ احمد پشتین
Latest posts by معاذ احمد پشتین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments