تمام دکھ ہے


جب اس شہر کے مکینوں نے شوق اور ارمان سے بنے ان گھروں کی طرف آخری بار دیکھا ہوگا تو ان کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی، ان مکانوں کی اینٹ اینٹ انھیں پکار رہی ہوگی اور دامن گیر ہو رہی ہوگی اور ہر طرف ایک آہ و بکا کا سا سماں ہوگا۔

”اے محبت کے پیمبرو! اپنے ہاتھوں سے اینٹیں اور گارا ڈھو ڈھو کر ان بنیادوں کو سینچنے والو! در و دیوار پہ نقش و نگار بنانے والو! ناز و نخوت سے ڈیوڑھی اور بھینت کو تکنے والو! دریچوں میں کھڑے ہو کر ابھرتے آفتاب کا نظارہ کرنے والو! اب جب تمھاری امیدوں کا خرمن بالکل تیار ہو چکا اور عیش سکونت کے دن آ گئے تو کہاں چل پڑے؟

معلوم ہے کہ تمہارا جگر بھی کٹ رہا ہے اور تمہاری آنکھیں بھی اشکوں سے تر بہ تر ہیں، تم ہمارے لیے اور ہم تمہارے لیے اس درجہ افسردہ ہیں تو کوئی سبیل نکالو، تم نہ جاؤ، یہیں ہمارے ساتھ رہو۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو، اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو یاد رکھو تمھارے فراق کا روگ سرطان بن کر ہمارے تن بدن میں پھیل جائے گا، اور ہاں تم بھی تو جدائی کے زخموں کو کبھی اپنے جگر سے نہ دھو سکو گے، جاتے ہو تو جاؤ، تمہارا خدا حافظ۔ تا صبح قیامت تمہاری راہ تکنا ہمارا مقدر ٹھہرا، ہو سکے تو لوٹ آنا۔

ہم جانتے ہیں تمہارا من ہم سے دور جا کر کبھی خوش نہ رہ سکے گا، تم ہمیشہ ہماری یاد میں آنسو بہاؤ گے، ان بالا خانوں کے دریچوں سے گزرتی ہوئی مست ہواؤں کی یاد تمہارے قلب و روح میں ارتعاش پیدا کریں گی اور تم بے قرار ہو جاؤ گے، تم نے تو خواب دیکھے تھے کہ تم اپنی اولادوں کے ساتھ ان بالا خانوں میں بیٹھا کرو گے اور تمہارے بچوں کے شور و غل سے یہ دریچے آباد ہوں گے، مگر یہ کیا کہ تم خود ہی پل بھر میں اجنبی بن کر رخصت ہو چلے، ہماری اداسی و دلگیری کا ذرا خیال نہ کیا۔

یاد رکھو ہماری رونقیں تم سے ہیں، ہماری منقش دیواروں کے رنگ ڈھنگ تمہارے دم قدم سے قائم ہیں، ہمارے آنگن کی چہل پہل تمہارے وجود کی محتاج ہے، اگر تمہاری آنکھ ہی نہ دیکھے تو ہمارا جمال بے معنی، تم جار ہے ہو تو جاؤ مگر یاد رکھو تمہارے بعد ہم اپنے اوپر سوگ کی ابدی چادر اوڑھ لیں گے، اب پھول کھلیں یا طیور چہچہائیں، اب بادل برسیں یا سبزہ پھوٹے، ہماری آزردگی و دلگیری میں چنداں کمی نہ آئے گی۔

یقین جانو گزرتے سمے کے ساتھ ہماری کم تابی اور سونے پن میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، تم اپنی اولادوں کو ہمارے ایک ایک زاویے کے بارے میں تفصیل سے بتلایا کرو گے اور تمہاری آنکھیں بھیگ بھیگ جایا کریں گی، تمہارے مڑ مڑ کے دیکھنے کا منظر آج تک ہمارے جگر کو کاٹ رہا ہے، تمہارے رک رک کے چلنے کی ادا آج تک ہماری روح کو چھلنی کر کر رہی ہے،

تم جا چکے ہو مگر تمہارے قدموں کے نشان ہمارے کرب کو دو چند کر رہے ہیں، مگر یہ تقدیر کے خالق کا فیصلہ ہے، اس جدائی کی بھٹی میں جلتے رہنا ہمارا مقدر ٹھہرا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ تمہارے جانے کے بعد ہماری چھاتی پہ شب و روز سانپ لوٹتے ہیں انسان نما سانپ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments