دلی حج ہاؤس کی تعمیر پر تنازع اور انڈین دارالحکومت میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے حالیہ واقعات

شکیل اختر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی


حج ہاؤس کی سائٹ پر لگا معلوماتی کتبہ جسے گذشتہ دنوں توڑ دیا گیا ہے

حج ہاؤس کی سائٹ پر لگا کتبہ جسے گذشتہ دنوں توڑ دیا گیا

اتوار کے روز انڈین پارلیمان کی عمارت کے نزدیک ہونے والے ایک احتجاج میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد اور اشتعال انگیز نعرے لگانے کے الزام میں پولیس نے برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اشیونی اپادھیائے سمیت چھ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

انڈین سوشل میڈیا پر اتوار کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں جنتر منتر پر ہونے والے اس مظاہرے میں بعض افراد کو مسلمانوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق وہ اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔

دلی پولیس کے ترجمان چنمے بسوال نے بی بی سی کو بتایا کہ اس احتجاجی پروگرام کے منتظم اشیونی اپادھیائے سمیت دیگر گرفتار چھ افراد سے اس ویڈیو کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

اشیونی اپادھیائے بے جے پی کے سابق ترجمان اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ گرفتار کیے گئے دیگر چھ افراد ’ہندو فورس‘ اور ’سدرشن واہنی‘ جیسی ہندو تنظیموں کے رکن بتائے جاتے ہیں۔

’بھارت جوڑو‘ نامی اس احتجاجی پروگرام کا بنیادی مقصد نوآبادیاتی دور کے تمام قوانین کو ختم کر کے ایک یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔ اس موقع پر ہونے والی تقاریر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ انڈیا میں پانچ کروڑ روہنگیا اور بنگلہ دیشی مسلمان غیر قانونی طور داخل ہو چکے ہیں جو ’ہندوؤں کی ملازمت، وسائل اور روزی روٹی چھین رہے ہیں۔‘

اس احتجاجی پروگرام میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے اور اطلاعات کے مطابق وہاں پولیس بھی موجود تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ منتظمین نے اس پروگرام کے لیے مطلوبہ اجازت نامہ حاصل نہیں کیا تھا۔

حج ہاؤس کی تعمیر پر تنازع

حج ہاؤس کے لیے مختص جگہ

حج ہاؤس کے لیے مختص جگہ

دوسری جانب انڈیا کے دارالحکومت دلی میں ہی بعض ہندو تنظیمیں ‘دوارکا’ نامی علاقے میں مجوزہ حج ہاؤس کی تعمیر کی مخالفت کر رہی ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ ہندو اکثریتی علاقے میں حج ہاؤس کی تعمیر سے مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا، فساد برپا ہو گا اور یہاں شاہین باغ اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔

ہندو تنظیموں کے مؤقف کے برعکس کئی مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ عازمین حج کے ٹھہرنے کے لیے ان کے علاقے میں حج ہاؤس کی تعمیر پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

حج ہاؤس کے لیے جنوب مغربی دلی میں واقع دوارکا علاقے میں پانچ ہزار مربع میٹر زمین ایک عشرے پہلے کانگریس کے دور اقتدار میں الاٹ کی گئی تھی۔ اس زمین پر عازمین حج کے ٹھہرنے، اُن کی ٹریننگ، امیگریشن اور دیگر سہولیات کے لیے ایک کثیر منزلہ عمارت تعمیر کیے جانے کی تجویز ہے۔

اس منصوبے کے لیے دلی کی ریاستی حکومت نے تقریباً ایک ارب روپے مختص کیے ہیں۔

اس عمارت کی تعمیر شروع ہونے ہی والی تھی کہ ’آل دوارکا ریزینٹٹس فیڈریشن‘ نامی تنظیم نے اس کی مخالفت میں ایک بیان جاری کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ اگر یہ حج ہاؤس یہاں بن گیا تو ان کے علاقے میں کشمیر جییسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔

فیڈریشن کے سیکریٹری بی پی ویشنو نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے، ہم اس سے حج ہاؤس نہیں بننے دیں گے، اس سے کچھ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کی سیاست کر رہی ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی کیوں اس طرح کی عمارتیں بناتی ہیں، کیا ہندوؤں کی زیارت کے لیے کوئی عمارت بنائی گئی ہے؟‘

یہ بھی پڑھیے

امریکی کمیشن: انڈیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال ’پریشان کن‘

آسام کے وزیراعلیٰ کی مسلمانوں میں زیادہ بچوں کی پیدائش سے متعلق دعووں کی حقیقت

’مسلمان ہندو لڑکیوں سے شادی کر کے انھیں سعودی عرب فروخت کرتے ہیں، اپنی بچی کو بچا لیں‘

انھوں نے کہا کہ ’دوارکا ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔ مجوزہ حج ہاؤس سے متصل زمین دلی یونیورسٹی کی ‎ہے جبکہ کچھ ہی دور بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور بڑا میٹرو سٹیشن ہے۔ آپ نے شاہین باغ میں دیکھا کہ یہ (مسلمان) لوگ کس طرح قانون کو نہیں مانتے۔ اگر عازمین کی ہزاروں بسیں یہاں آئیں گی اور کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو پھر اس سے مشکل حالات پیدا ہوں گے جیسے شاہین باغ میں دیکھنے کو ملے۔ اس لیے ہم یہاں یہ عمارت نہیں بننے دیں گے۔‘

گذشتہ جمعہ کو اس معاملے پر اس علاقے کے اطراف کے دیہاتوں کی ایک ’مہاپنچایت‘ بلائی گئی تھی۔ پنچایت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوارکا میں حج ہاؤس نہیں بننے دے گی۔ لیکن دوارکا کے کئی سرکردہ باشندوں کا خیال ہے کہ جو لوگ حج ہاؤس کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دوارکا کے رہائشی ہیں ہی نہیں۔

Leena

لینا: ’یہاں لوگوں کو باٹننے والی سیاست نہ پہلے چلی ہے اور نہ اب چلے گی‘

لینا ڈبیرو ایک مقامی رہائشی سوسائٹی میں سیکریٹری ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’دوارکا میں مساوی شہریت کے اصول میں یقین رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ یہ ایک جدید سوچ کا معاشرہ ہے۔ یہاں ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، مسلم بھی ہیں اور سبھی اپنے اپنے مذاہب پر آزادی سے عمل کر رہے ہیں۔ یہاں بانٹنے والی سیاست نہ پہلے چلی ہے اور نہ اب چلے گی۔‘

ہماچل، ہریانہ، مغربی اتر پردیش، پنجاب اور کئی دیگر ریاستوں سے عازمین حج دلی آتے ہیں اور یہیں سے حج کے لیے پرواز کرتے ہیں۔ حج کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل انھیں کئی روز تک یہاں ٹھہرنا ہوتا ہے۔

عازمین کے لیے حج ہاؤس ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ اور کئی دیگر شہروں میں بھی بنے ہوئے ہیں۔ عازمین کی آسانی کے لیے یہاں دلی میں ایک حج ٹرمینل بھی مخصوص کیا گیا ہے۔

دیویش مندیپی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں سرگرم ہیں۔ اُن کا کہنا ہے ’حکومت ہر برس ہندو کانوڑیوں کی یاترا اور ان کے ٹھہرنے کا انتظام کرتی ہے۔ کمبھ میلے پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ مجھے کوئی یہ بتائے کہ اگر یہاں سینکڑوں عازمین حج آ کر ٹھہرتے ہیں تو وہ کس طرح سماج کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں؟‘

دیواکر دوارکا کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سماج میں منافرت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ ’ہم اتنے سالوں سے گنگا جمنی تہذیب کی بات کرتے آئے ہیں، دوارکا میں وہ اب تک بنی ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا جو مدعا ہے وہ دراصل گنگا کو ہٹا کر دنگا کی طرف لے جانے کا ہے۔‘

ایک اور رہائیشی منیش کندرا کو بھی حج ہاؤس کی مخالفت پر تشویش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دورارکا میں مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والے بستے ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں مائگرینٹس ہیں۔ ہم نے لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی ایسی کوشش پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ لوگوں کے ذہن کو نفرت سے آلودہ کیا جا رہا ہے۔‘

دوارکا کی رہائشی، سرکردہ سماجی اور حقوق انسانی کی کارکن شبنم ہاشمی اس بات پر حیران ہیں کہ سینکڑوں لوگوں نے پولیس کی اجازت کے بغیر میٹنگ کی اور نفرت انگیز نعرے لگائے اس کے باوجود ابھی تک پولیس نے ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی۔

ان کے خیال میں ’یہ کھلے عام فرقہ فرسٹ ایجنڈہ ہے۔ مجوزہ حج ہاؤس کے خلاف جو لیٹر جاری کیا گیا ہے وہ خود اپنے آپ میں ایک مجرمانہ دستاویز ہے۔ یہ کہنا کہ یہاں حج ہاؤس نہیں بن سکتا یہ ایک فرقہ پرست تصور ہے۔ اور یہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ یہاں لوگوں کو تقسیم کیا جا سکے۔‘

مزید پڑھیے

آسام میں مندر تعمیر کروانے والے ایک مسلمان جوڑے کی کہانی

’لو جہاد‘ قانون کا پہلا شکار: ’میں بے گناہ ہوں، لڑکی سے کوئی تعلق نہیں‘

’گھر والوں کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ ہندو مرد سے شادی کے خلاف تھے‘

متحدہ مسلم مجلس عمل کے رہنما کلیم الحفیظ نے اس معاملے کو لے کر دلی کی کییجریوال حکومت پر بھی تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حج ہاؤس کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپے کی رقم کئی برس پہلے ہی مختص کی جا جکی تھی۔ لیکن اس پر کام اب شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

’دلی میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ انھوں نے اب ہاؤس تعمیر شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب چند شرپسند عناصر وہاں پہنچ کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں، جن کا مقصد ماحول میں زہر گھولنا ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل نفرت کی سیاست میں شدت آ جاتی ہے۔ اتر پردیش اور ملک کی کئی دیگر ریاستوں میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حج ہاؤس کے خلاف مظاہرے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تحریکیں انتخابی سیاست کا حصہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp