برطانیہ: پاکستان کو بدستور ریڈ لسٹ میں رکھنے کا قضیہ


اس سال رمضان کی آمد سے قبل ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری حبا احمد نے ہاؤس آف کامنز (پارلیمان) کو پیش کرنے کے لئے ایک الیکٹرانک پٹیشن شروع کی جس میں التماس کی گئی کہ پاکستان کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ سے خارج کیا جائے۔ ریڈ لسٹ ممالک سے واپس آنے والوں کو حکومت کے فراہم کردہ ہوٹل میں لازمی قرنطینہ اور ساتھ ہی بہت بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

اس طرح کی عوامی شکایات اور تجاویز کو زیر غور لانا برطانوی جمہوریت کا ایک بنیادی اور اہم جزو ہے۔ تاریخی طور پر اس رواج کی ابتدا 1669 ء میں ہوئی۔

صدیوں سے چلے آتے اس نظام میں 2006 ء میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی جب الیکٹرانک پٹیشن دائر کرنے کا نظام روشناس کرایا گیا۔ اب کوئی بھی شہری پٹیشن شروع کر کے ای میل یا سوشل میڈیا کے ذریعے اسے عوام الناس تک پہنچا سکتا ہے ایسی ہر پٹیشن پر جس کو دس ہزار برطانوی شہریوں کی تائید حاصل ہو عوام کو جواب دینا حکومت کے لئے لازمی ہوجاتا ہے جبکہ تائید کنندگان کی تعداد ایک لاکھ ہونے کی صورت پر اسے پارلیمان میں زیر بحث لانا ضروری ہو جاتا ہے۔

پاکستان پر سفری پابندیوں کی بابت ہیبہ احمد کی ای پٹیشن کو مئی میں جیسے ہی دس ہزار دستخط حاصل ہوئے برطانوی حکومت نے اپنا جواب جاری کر دیا جس کے مطابق حکومت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد اور صحت عامہ کے تحفظ کے پیش نظر ہر ممکن حد تک جانے کے لئے تیار ہے اور پاکستان کی ریڈ لسٹ میں شمولیت اسی عمل کی ایک کڑی ہے۔ اور یہ فیصلہ کرتے ہوئے (پاکستان میں کورونا وائرس کے ) اعداد و شمار کے علاوہ حیاتیاتی تحفظ کے مشترکہ مرکز Joint Biosecurity Centre کی سفارشات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

اب جبکہ اس پٹیشن پر دستخط کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر سوا لاکھ تک پہنچ گئی ہے صبح بروز پیر یہ پارلیمان کی کارروائی کا حصہ بنے گی اور عوام لائیو ٹیلی کاسٹ میں اس کے حق اور مخالفت میں دلائل کو گھر بیٹھ کر دیکھ اور سن سکیں گے۔

کورونا کی عالمی وبا کی ٹائم لائن کے چیدہ چیدہ نکات

3 جنوری 2020 کو چین کے بیماریوں کی روک تھام اور احتیاط کے ادارے نے عالمیٔ ادارۂ صحت کو کورونا وائرس کے وجود اور اس کی ہلاکت خیزی سے مطلع کیا۔ بیس دن بعد اس وائرس کی جنم بھومی ووہان شہر میں ائرپورٹ، بس اور ٹرین اسٹیشن کو بند کر کے جدید انسانی تاریخ کے اس سخت ترین لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا جس کا تھوڑا بہت مزہ اب تک خطۂ ارض کا ہر باسی چکھ چکا ہے۔ ووہان کے لاک ڈاؤن کے دوران ہم تک وہ وڈیوز پہنچیں جو وہاں زیر تعلیم پاکستانی طلباء نے ہوٹلوں میں قرنطینہ کرتے ہوئے بنائیں اور وائرل کیں۔

فروری 2020 کے پہلے ہفتے میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک چین کا مقاطعہ کرچکے تھے۔ سفری پابندیوں کی زد میں پہلے چین پھر اٹلی اور دیگر ممالک آنے لگے اس اثناء میں پوری دنیا میں کورونا سے بیمار پڑنے اور جانبر نہ ہونے والے مریضوں کے رجسٹر قائم ہو گئے جہاں ہر ملک سے آنے والے اعداد و شمار ہمہ وقت اپ ڈیٹ کیے جاتے ہیں ان اعداد و شمار کو جواز بناتے ہوئے اتحادی اور ہمسایہ ممالک بھی اپنے دروازے ایک دوسرے پر بند کرنے لگے۔ مثال کے طور پر کینیڈا نے مارچ 2020 ء میں اپنے پڑوسی امریکہ کے ساتھ ملی طویل سرحد بند کر کے امریکی شہریوں کے داخلے پر قدغن عائد کردی تھی۔

اسی دوران کورونا وائرس کی پہلی تبدیل شدہ شکل جسے یو کے یا الفا ویریئنٹ کا نام دیا گیا کا جنم برطانیہ میں ہوا۔ 29 دسمبر 2020 کو کراچی ائرپورٹ اترنے والے تین برطانوی پاکستانی مسافروں میں اس ویریئنٹ کی تشخیص ہوئی تو خود پاکستان نے بھی کچھ عرصے کے لئے برطانوی مسافروں کی آمد پر پابندی عائد رکھی۔ برطانوی پاکستانیوں کے ہمراہ پہنچنے والی کورونا وائرس کی اس نئی شکل نے پاکستان جس کی کثیر آبادی جو ویکسین سے محروم تھی کو بری طرح متاثر کیا۔

کراچی یونیورسٹی کے بین الاقوامی ادارہ برائے کیمیکل اور حیاتیاتی علوم کے مطابق چند ماہ میں کورونا سے متاثرین میں ساٹھ سے ستر فیصد اسی ویریئنٹ کی زد میں تھے یہ تقریباً وہی وقت تھا جب برطانیہ اپنی کثیر آبادی کو ویکسین لگانے کے بعد آہستہ آہستہ بین الاقوامی سفر پر عائد پابندیاں اٹھا کر زیادہ متاثرہ ممالک میں اپنے شہریوں کے غیر ضروری سفر کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے ان پر پابندی لگا رہا تھا۔ اوائل اپریل میں 39 ممالک کی فہرست بنی جس میں قطر، امارات، اومان اور پاکستان شامل تھا اس فہرست میں چند ہفتے بعد بھارت کا اضافہ بھی ہو گیا۔

سفری پابندیوں کا ٹریفک لائٹ نظام

یوں تو دنیا کے ہر اہم ملک نے دیگر ممالک کی سفری لحاظ سے محفوظ، غیر محفوظ اور خطرناک میں درجہ بندی کرلی ہے اسی طرز پر برطانیہ نے سبز، عنبر اور سرخ فہرستوں میں ممالک کو منقسم کر دیا گیا۔ اس درجہ بندی میں بھی پاکستان پر عائد سفری پابندیاں برقرار رکھتے ہوئے اسے ریڈ لسٹ میں برقرار رکھا گیا۔

جوائنٹ بائیو سیکیورٹی سینٹر

جون 2020 میں جب کورونا کے باعث ہونے والی اموات عروج پر پہنچ رہی تھیں اور ابھی کوئی ویکسین بھی نہیں آئی تھی تو برطانیہ میں جوائنٹ بائیو سیکیورٹی سینٹر کے نام سے ایک نیا پارلیمانی ادارہ تشکیل دیا گیا جس کی بنیادی ذمہ داری دنیا کے ڈھائی سو ممالک میں کورونا وائرس سے متعلقہ اعداد و شمار ڈیٹا کی مسلسل چھان بین کرنا اور مبنی بر شواہد پالیسیاں وضع کرنا ہے اس طریقۂ کار میں چار پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے :

1۔ ویریئنٹ کا تعین

اب تک کورونا وائرس کی متعدد مختلف شکلیں ویریئنٹ سامنے آپ کے ہیں۔ یہ مرکز غور کرتا ہے کہ کس ویریئنٹ کی انسان میں منتقلی، بیماری کی شدت، مدافعت کی مزاحمت، ویکسین کے بعد اثرات اور پھیلاؤ کی تفصیلات کیا ہیں۔

2۔ ٹرائی ایج

اس بابت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک لاکھ آبادی میں کتنے افراد کو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ ہفتے وار کیسز کی شرح، ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح، ان ویریئنٹ کا برطانیہ برآمد کی سطح اور سفر کے نتیجے میں پھیلاؤ

3۔ مزید خدشات کی چھان بین

4۔ GISAID، عالمی ادارہ صحت اور ہماری دنیا ڈیش بورڈ Our World in data dashboard کا مسلسل تجزیہ کرتا ہے اور ساتھ ہی برطانیہ کے ٹیسٹ اور ٹریس کے ہفتہ وار اعداد کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خود متعلقہ ملک کی ویب سائٹس سے ڈیٹا لیتا رہتا ہے۔

جوائنٹ بائیو سیکیورٹی سینٹر کی سربراہی اس وقت مندرجہ ذیل چار وزراء صحت کر رہے ہیں :
وزیر صحت انگلستان ساجد جاوید
رابن سوان شمالی آئرلینڈ کے وزیر صحت
حمزہ یوسف۔ سکاٹ لینڈ کے وزیر صحت
ایلونیڈ مارگن ویلز کی وزیر صحت
ساجد جاوید اور حمزہ یوسف دونوں پاکستانی نژاد ہیں۔

برطانوی پاکستانیوں میں کورونا سے اموات کی شرح

برطانوی قومی شماریاتی ادارے کے اکتوبر 2020 میں شائع شدہ اعداد و شمار کی تجزیاتی رپورٹ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے افریقی اور کریبئین آبادی میں کورونا کہ زد میں آ کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کا خطرہ سفید فام کے مقابلے میں تین گنا جبکہ یہی خطرہ پاکستانیوں میں ڈھائی گنا زیادہ ہے دیگر جنوبی ایشیائی نسلوں یعنی بھارتی آبادی میں یہ خطرہ تھوڑا سا کم جبکہ بنگلہ دیشی نسل میں پاکستانی سے کہیں زیادہ تھا۔

رواں سال فروری میں سرکاری نسلی عدم مساوات کی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران سیاہ فام افریقی افراد میں موت کا خطرہ 60 فیصد کم جبکہ پاکستانی افراد میں یہ خطرہ ایک سو فیصد بڑھ چکا ہے۔

برطانوی پاکستانیوں میں ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ کے اعداد و شمار

یہ ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت ہے کہ کورونا کی ویکسین ہی اس انتہائی خطرناک وبا سے حفاظت فراہم کر سکتی ہے۔ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے دسمبر 2020 میں اپنے تمام شہریوں کو ویکسین لگانے کی سب سے پہلی اور انتہائی منظم مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے آٹھ ہفتے بعد برطانوی قومی ادارۂ شماریات کے جمع کردہ اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی کہ ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کرنے والے افراد کی شرح مختلف نسلی گروہوں میں کچھ یوں ہے :

برطانوی یا آئرش سفید فام 15 فیصد
بھارتی 20 فیصد
پاکستانی اور بنگلہ دیشی 42 فیصد
سیاہ فام برطانوی 71 فیصد

اعداد و شمار اور غیر ضروری سازشی تھیوریاں

جیسا اوپر ذکر ہوا پاکستان کے ریڈ لسٹ میں رہنے کا دار و مدار ان اعداد و شمار پر ہوگا جو عالمی ادارۂ صحت، اور ورلڈ ان ڈیٹا اور خود پاکستان کی طرف سے فراہم کیے جائیں گے۔ ان میں سب سے اہم پہلو یہ ہیں کہ آبادی کے کتنے فیصد پر ٹیسٹ کیے جا رہا ہیں، کتنے ٹیسٹ مثبت ہیں، کورونا وائرس کا کون سا ویریئنٹ سرگرم عمل ہے اور کتنی آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔

ہم ویکسینیشن کی طرف دیکھیں تو بھارت کی 20 فیصد جبکہ پاکستانی کی آٹھ فیصد آبادی کو ویکسین کی پہلی ڈوز لگائی جا چکی ہے جبکہ پوری طرح ویکسینیشن کہ شرح بھارت میں 8 جبکہ پاکستان میں محض دو فیصد ہے۔

ہر معاملہ کو حب الوطنی اور قوم پرستی کا معاملہ بنانے اور نت نئی سازشی تھیوریاں گھڑنے سے ہماری کمیونٹی کو بہت نقصان ہوگا۔ برطانیہ میں مقیم تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو علم ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے دوران سب سے طویل عرصے ملک بند کرنے اور صحت عامہ اور زندگی پر پوری معیشت قربان کرنے کا سہرا برطانوی نظام کے سر بندھا ہوا ہے ہمارا فرض بنتا ہے کہ سازشی تھیوریوں سے بچتے ہوئے سائنسی طرز استدلال اختیار کریں اور اپنی پس ماندہ کمیونٹی کی آگہی اور شعور میں بھی اضافہ کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments