پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانے کا مسئلہ


یہ گرمیوں کے لمبے دن تھے۔ تپتی کرنوں کی شدت سے بشر تو کیا چرند پرند بھی گھنے چھاوٴں کی پناہ مانگ رہے تھے۔ میں شہر گلگت سے اپنی آبائی گاوٴں کی جانب پبلک گاڑی میں محو سفر تھا۔ گاڑی کی آخری سیٹ پر ایک مذہبی سیاسی جماعت کا کارکن بھی سفر پر ساتھ تھا۔ اکثر ڈرائیور حضرات کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے سواریوں کو محظوظ کرانے کی خاطر کوئی گیت گانا لگا دیتے ہیں۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ ڈرائیور اپنی عادت سے مجبور ہو کر کوئی رومانوی گانا لگا دیتا ہے اور سواری درد بھری آہوں سے گیت کا لطف اٹھا رہے تھے۔

مذہبی سیاسی جماعت کے کارکن نے گاڑی کی آخری سیٹ سے ڈرائیور کو موبائل سے کال ملائی اور انتہائی آہستگی کے ساتھ گانا بند کرنے کا کہا۔ اس لیے کہ وہ گانا سننا پسند نہیں کرتے، گناہ کبیرہ اور حرام فعل سمجھتے تھے۔ مسافروں نے اس کی قوی ایمان کی دل کھول کر داد دی ’مگر کیا مجال ڈرائیور کی کان میں جوں تک رینگی ہو۔ کارکن سے رہا نہ گیا اور اعتراض شروع کر دی۔ گانا بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ڈرائیور نے اس کی ایک نہ سنی اور موسیقی کی آواز مزید بڑھا دی۔

گانا اور گاڑی دونوں چلتے رہے۔ سیاسی کارکن سے ضبط نہ ہو سکا اور ڈرائیور کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ڈرائیور آپے سے باہر ہو گیا، گاڑی روک لی اور اسے نیچے اتارا۔ دونوں میں تو تو میں میں ہو گئی اور شارع عام پر دست و گریباں ہو گئے۔ اس منظر نے مجھے بہت اداس کر ڈالا اور مجھ سمیت تمام سواریوں کا مزہ جاتا رہا۔

میں باقی مسافروں کی طرح خاموش تماشائی نہیں بن سکتا تھا لہٰذا میں گاڑی سے اتر کر آگے بڑھا اور دونوں کو الگ الگ کر کے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی اور ڈرائیور کو اپنے پیسنجروں کی آرام و سکون کا خیال رکھنے کی نصیحت بھی کی اور یوں نقیض باہمی ختم ہوئی۔ میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ٹرانسپورٹرز کے لئے اس حوالے سے قانون کا پابند کیا جائے اگر میوزک کا شوق پورا کرنا ہے تو ہر مسافر کو ہیڈ فون فراہم کیے جائیں تاکہ جو نہ سننا چاہیں وہ اذیت سے محفوظ رہ سکیں۔

محترم قارئین! زمانے کے مطلب پرست لوگ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔ ہوا یوں کہ چند سال بعد اسی مذہبی کارکن کا اپنے سیاسی قائدین کے ساتھ کسی معاملے پر اختلاف ہوا، آپس میں ناچاقیاں پیدا ہو گئیں، تلخیاں بڑھ گئیں۔ اس نے مذہبی سیاسی جماعت کو الوداع کہہ دیا اور اپنا ایک الگ ٹولہ بنا لیا۔ اس کا گروپ بڑھتا گیا اور ایک مضبوط جماعت بن گئی۔ دوسری جانب مذہبی جماعت کی جڑیں بے دردی سے کاٹنا شروع کر دیا۔ اس دفعہ 15 نومبر 2020 ء کو گلگت بلتستان میں انتخابات ہوئے اور یہی اس کو سابقہ مذہبی سیاسی جماعت سے انتقام لینے کا بہترین موقع تھا۔ اس نے سیاسی حریف کے طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ رات کے وقت غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج آنے شروع ہو گئے۔

میں کسی چوراہے پر کھڑا سیاسی ہلچل کا نظارہ کر رہا تھا۔ خوش قسمتی سے اس کی گروپ مذہبی جماعت کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوئی۔ اتنے میں میرے کانوں میں جھنکار بھرے گیتوں کی آوازیں آنے لگیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ یہ شخص اپنی گروپ کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتا ہوا آ گیا۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی اور اس کا جنون دیدنی تھا۔ یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اور ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا ’کیوں؟ کیوں کہ وہ حرام موسیقی اب ان کو حلال ہو چکی تھی۔ گانے اب اس کو جائز ہو چکے تھے۔ یکایک ان کی نظر مجھ پر پڑی، ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے اور وہ احساس ندامت سے پانی پانی ہوتا جا رہا تھا۔ میں نظریں پھیر کر آگے بڑھنے لگا۔ اس لمحے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ لوگ کس قدر مطلبی اور مفاد پرست ہوتے ہیں جو دین و مذہب کو بھی اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق چلاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments