کمیونٹی کی کوششوں سے گجرو جاھو کا بند سکول آٹھ سال بعد فعال


چار کمروں پر مشتمل مڈل سکول گجرو جاھو کی چاردیواری کے اندر سکوت نے دم توڑ دیا ہے۔ استاد کی تعیناتی اور بچوں کی آمد سے تدریسی نظام بحال ہوا ہے مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

2013 کا سال آواران بھر کی تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لینے کا سال قرار پایا۔ زلزلہ آیا اور پھر حالات خراب ہوئے۔ مڈل سکول گجرو (بندش سے قبل پرائمری سکول ہوا کرتا تھا) کا واحد ٹیچر محمد اقبال اپنا تبادلہ کر گئے سکول کو تالہ بندی کا سامنا کرنا پڑا۔

الہی بخش دیدگ نئے سکول ٹیچر ہیں سکول میں ان کی تعیناتی موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ہوا تھا۔ چھٹیاں ختم ہوتے ہی گرم علاقوں کا تعلیمی نظام بحال ہوا مگر مڈل سکول گجرو کو کھلوانے میں پریشانیوں کا سامنا تھا۔ سکول کی بندش کے بعد سے سکول کا فرنیچر اور ضروری سامان غائب تھے۔ الہی بخش دیدگ نے سکول کی موجودہ صورتحال سے متعلق کمیونٹی کو آگاہ کیا تو کمیونٹی سے محمد ابراہیم ہی تھے جنہوں نے سکول کو دوبارہ فعال بنانے میں الہی بخش کی مدد کی۔

محمد ابراہیم پیشے سے زرعی افسر ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو لے کر سخت پریشان تھے۔ آمدن اتنی اچھی نہیں کہ بچوں کو حصول علم کے لیے شہر بھیج سکیں۔ وہ کسی معجزے کا انتظار کر رہے تھے الہی بخش دیدگ کی آمد نے امید کی کرن پیدا کی ہے۔

سکول کے لیے بنیادی مٹیریل اور فرنیچر کی فراہمی کے لیے اس نے ہم خیال دوستوں سے رابطہ کرنا شروع کیا جنہوں نے نہ صرف مٹیریل اور فرنیچر فراہم کیے بلکہ اسٹاک میں موجود کتابیں بھی فراہم کیں۔ جس سے انہیں تقویت ملی کہ وہ اب سکول کا دوبارہ آغاز لے سکتے ہیں۔

آج 10 اگست 2021 ہے۔ سکول نے آغاز لے لیا ہے۔ 41 بچے اور بچیاں سکول آئے ہیں سکول کو لے کر ان میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ انہی بچوں میں ابراہیم کی دو بیٹیاں شامل ہیں بچوں میں کتابیں تقسیم کی گئی ہیں۔ اب وہ کتابوں کی صفحات پلٹ رہے ہیں۔

سکول بند کیوں ہوا؟

وہاں موجود کمیونٹی کے دیگر افراد کا کہنا تھا کہ جب حاضرباش سکول ٹیچر محمد اقبال کا تبادلہ ہوا تو بعد میں آنے والے اساتذہ نے دلچسپی لینا بند کیا جس کے نتیجے میں سکول غیر فعال ہوا۔ سکول کی بندش کو لے کر انہوں نے اپنا مدعا 2019 کو ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ ذمہ داران تک پہنچائی مگر اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سکول کے دیگر دو اساتذہ انعام اللہ اور الطاف طویل عرصے سے غیر حاضر ہیں

گاؤں کا فاصلہ دوسرے سکولوں سے کتنا ہے؟

مذکورہ گاؤں سے ہائی سکول کوٹو کا فاصلہ 5 کلومیٹر کا ہے۔ دشوار گزار راستے، لوکل ٹرانسپورٹیشن کی عدم دستیابی اور کوٹو سکول میں تعلیمی زبوں حالی یہ وہ وجوہات ہیں جنہیں بنیاد بنا کر بچوں کو حصول علم سے محروم رکھا گیا۔ پرائمری سکول سستگان نمبر 2 جسے واسطی گوٹھ کہا جاتا ہے کا فاصلہ مذکورہ گاؤں سے چار کلومیٹر کا ہے استاد نہ ہونے کے باعث طویل عرصے سے بند ہے تاہم تعلیم کی مد میں ایک اور بلڈنگ کا ڈھانچہ وہاں پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اور پرائمری سکول سستگان نمبر 1 غیر فعال ہے۔

آٹھ سالہ بندش کے دوران بچوں کے لیے متبادل ذریعہ تعلیم کیا رہا؟

کمیونٹی کے پاس جہاں سکول نہ ہو وہاں مدرسے کا مکتب قائم کیا جاتا ہے۔ ابھی ہم سکول کے اندر موجود ہی تھے کہ سر پر ٹوپی پہنے تین لڑکے سکول کے اندر داخل ہوئے۔ ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ مکتب کے طالبعلم ہیں جو قرآن حفظ کر رہے ہیں۔ دو وقت انہیں قرآن سکھایا جاتا ہے جب سکول بند تھے تو بچے صبح و شام مکتب جاتے تھے عم پارہ اور قرآن سیکھنے۔ اب جب سکول کھل گیا ہے تو صبح کے وقت بچے سکول جائیں گے اور شام کو مکتب۔

کمیونٹی کی جانب سے سکول کی فعالیت کی اطلاع ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر اور اس کے معاون افسر ان تک نہ صرف پہنچا دی گئی ہے بلکہ انہیں سکول کا دورہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے کمیونٹی یہ سب اس لیے کر رہی ہے کہ سکول کے انتظام و انصرام میں انہیں ذمہ داران کا ساتھ ملے۔

بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کی سروے رپورٹس کے مطابق ضلع بھر میں سکولوں کی بندش کی دو بنیادی وجوہات تھیں ایک یہ کہ شعبہ تعلیم کو اساتذہ کی قلت کا سامنا تھا دوئم یہ کہ غیر حاضر اساتذہ کو سیاسی اور انتظامی سرپرستی حاصل تھی۔ غیر حاضر اساتذہ کو وہاں تعینات کیا جاتا جہاں سکول عرصہ دراز سے بند تھا۔ جس کا اثر فعال سکولوں پر پڑتا تھا۔

علاقے کی آبادی کتنی ہے؟

علاقے کی آبادی اس وقت 500 نفوس پر مشتمل ہے۔ نومبر 2011 کی رپورٹ کے مطابق سکول میں داخل طلبا و طالبات کی تعداد 57 تھی اب یہ تعداد 100 سے تجاوز کر جائے گی۔ اگر سکول کے اندر اساتذہ کی کمی پوری ہو تو ملحقہ گاؤں ملان کی آبادی بھی اس سکول سے استفادہ کرے گی۔ جس کی آبادی 800 نفوس پر مشتمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments