مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو


دھیان کا پرندہ نہ جانے کون سے آسماں پر پرواز کر رہا تھا کہ میں بالکل بھول گئی تھی، کہ میرے سامنے ڈائری کا جو صفحہ کھلا پڑا ہے اس پر کیا لکھا ہے۔ بس نظروں کے سامنے ماں کا شفیق چہرہ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

پیاری امی جان آپ سولہ اکتوبر 2015 تین محرم کو اس دارفانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں اپنے سنٹر میں بریک کے دوران اپنے غم کو اپنی ڈائری کے صفحات پر لفظوں میں ڈھال رہی تھی۔ یہ سب میں نے 21 اکتوبر 2015 کو لکھا تھا۔ جو کچھ ایسے تھا۔

ماں کے لفظ میں کتنی مٹھاس ہے، جس کا پورا وجود ایک پیار کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے، جو اپنے بچوں کے لیے صرف محبت اور شفقت رکھتی ہے، لیکن جب ماں اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے تو یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتا ہے، زندگی بے رونق ہو جاتی ہے، لگتا ہے ہر طرف ویرانی چھا گئی ہے۔ خاص طور پر بیٹیوں کا دکھ سکھ کا ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ماں باپ میں سے کسی ایک کا بھی سایہ سر پر ہو تو وہ گھر سب بچوں کے لیے ایک ہیڈ آفس ہوتا ہے، اور جب والدین کا سایہ اٹھ جائے تو بہن بھائیوں کا رشتہ بھی بس احساس کا رہ جاتا ہے ۔

امی جان آج آپ کو ہم سے بچھڑے ہوئے چھ دن ہو گئے ہیں، ہر کام ویسے ہی ہو رہا ہے، بس ہماری پیاری ماں چلی گئی ہیں۔ ابا جی تو نو سال پہلے ہی ملک عدم سدھار گئے تھے، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو لگا قیامت آ گئی ہے، آپ کو سنبھالنے میں اور خود کو سنبھالنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کا شفیق وجود ہمارے درمیاں موجود تھا، اور ہم ابا جی کی کمی کو آپ کے پیار میں ہی پانے لگے۔ آپ جب تک ژندہ رہیں، ابا جی کے رات والے کپڑے اپنے کمرے کے ڈریسنگ روم میں ہر روز ویسے ہی رکھتیں، جب بھی ہم آپ سے ملنے جاتے تو ایسے ہی لگتا، کہ ابھی ابھی ابا جی نے دفتر سے آ کر کپڑے تبدیل کیے ہیں، ہم نے دبے لفظوں میں کئی بار کہا، کہ الماری میں رکھ دیتے ہیں لیکن آپ نے کہا مجھے دیکھ کر سکون ملتا ہے، پھر ہمارا بھی معمول بن گیا، ابا جی کے کپڑوں ان کی جناح کیپ کو چومتے تو ان کی خوشبو اور لمس کا احساس ہوتا۔

جب رفاقت کے کئی سال اکٹھے گزار کر ایک ساتھی داغ مفارقت دے جاتا ہے، تو دوسرا ساتھی سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا رہ جاتا ہے، بچوں کے ہوتے ہوئے بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ پھر زندگی کے روز و شب پہلے جیسے نہیں رہتے، امی جان مجھے یاد ہے دوپہر کو جب آپ کمرے میں آرام کرتیں تو ریڈیو پر گانے سنتیں تھیں، اور ابا جی کے جانے کے بعد آپ اپنی پوتیوں سے ان کے آئی پیڈ پر ایک گانا بار بار سنتیں ،

نہ سیکھا میں نے جینا تیرے بنا ہمدم،

آپ اچانک ہی ہم سے روٹھ گئیں، پتہ ہی نہیں چلا، نہ تو آپ بیمار تھیں۔ مجھے فون آیا تھا کہ امی جان گر گئی ہیں، آپ کی Hip bone میں فریکچر ہو گیا تھا، میں جب ہسپتال پہنچی تو آپ کو اسٹریچر پر لٹایا ہوا تھا، آپ کو اس حالت میں دیکھ کر میں نے رونا شروع کر دیا، اور آپ نے کہا کہ جانا تو میں نے تھا ہی تو ویسے ہی مجھے لے جاتا میرے بیٹے کو ایسے ہی (چھوٹے بھائی کو دیکھ کر کہا) پریشان کیا ہے، واہ ماں واہ اپنی تکلیف میں بھی صرف اپنے بچوں کا خیال تھا، اور آپ اپنے خالق کائنات سے شکوہ کناں تھیں۔

پانچ ستمبر کو آپ گریں تھیں، اور پھر ڈیڑھ ماہ یوں بھاگتے دوڑتے گزر گیا، ہم نہیں جانتے تھے کہ آنے والا ہر دن ہماری ماں کو ہم سے دور لے کر جا رہا ہے، آپ کا آپریشن کامیاب ہوا تھا، لیکن آپ بالکل خاموش ہو گئیں تھیں۔ شاید آپ نے ٹھان لیا تھا کہ اب زندگی کے اس گورکھ دھندے سے نجات مل جائے تو اچھا ہے۔ اور پھر سولہ اکتوبر تین محرم کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اتفاق کی بات ہے ابا جی بھی تیرہ محرم کو ہم سے بچھڑ گئے تھے۔

وہ جو متاع حیات تھے، جو وجہ سکوں تھے، جو ہمارے لئے دعاؤں کا مرکز تھے، وہ جن کے لب ہمیشہ بچوں کی خوشیوں کی دعائیں مانگتے نہ تھکتے تھے، جن کی آنکھیں ہمیشہ بچوں کی سلامتی اور بخیریت گھر واپسی کی امید لئے روشن رہتیں تھیں، آج وہ ہستیاں اس دیس سدھار گئیں ہیں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔

وہ جو مٹی اوڑھے سو گئے ہیں
کہیں دور سپنوں میں کھو گئے ہیں
اب ان کو جگائیں کیسے
گھر لائیں کیسے

یہ میری ڈائری کے وہ دو تین صفحات تھے جن کو میں نے اپنے دکھ درد کا رازداں بنایا تھا۔ آج جب کہ امی جان کو ہم سے بچھڑے سات سال ہو گئے ہیں۔ تو ان بھاگتے دوڑتے ماہ و سال میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب وہ دل اور ذہن کے دریچوں سے محو ہوئے ہوں، بچے تو ہمیشہ ماں کی دعاؤں کے حصار میں رہتے ہیں۔ اور ماں کی آخری آرامگاہ پر جا کر مانگی ہوئی دعائیں ہمیشہ قبول ہوتی ہیں، یہ میرا ایمان ہے۔ امی جان آج بھی جب آپ سے ملنے آتے ہیں، اور آپ کی اور ابا جی کی آرام گاہوں کی صفائی کرتے ہیں تو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے آپ بہت خوش ہو رہی ہیں، کیونکہ صفائی کے معاملے میں آپ بالکل رعایت نہیں برت تیں تھیں، آپ کو ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر اچھی لگتی تھی۔ کپڑے جوتے سے لے کر، بیڈ روم باتھ روم کچن کی ہر چیز صاف ستھری اور اپنی جگہ پر ہوتی، گھر ہمیشہ صاف ستھرا ہوتا۔ اسی لئے ہم کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا یہ گھر بھی ہر وقت صاف ستھرا رہے۔ یقیناً آپ کا گھر وہاں پر بھی چمک دمک رہا ہو گا، آپ ابا جی کے پہلو میں بیٹھیں بچوں کی ہی باتیں کر رہی ہوں گی ۔

خالق کائنات آپ کو اپنے جوار رحمت میں رکھیں آمین۔

آپ کی قبر پر پھول بچھاتے ہوئے اور آپ کو خدا حافظ کہتے ہوئے، مجھے ایسے ہی لگ رہا ہے جیسے آپ اپنے چہرے پر دنیا جہاں کا پیار سمیٹے، چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی ہیں، جاو چناں آرام کرو۔ کیونکہ گھر نزدیک ہونے کی وجہ سے میں شام کی چائے اکثر آپ کے ساتھ پیتی تھی۔ اور جب میں کہتی کہ اب چلتی ہوں تو آپ یہ ہی کہتیں تھیں، جاو چناں آرام کرو، اور اب یہ جملہ سننے کو کان ترس گئے ہیں۔

آپ دونوں کے چلے جانے سے سب کچھ ہی بدل گیا۔
نہ مکیں رہے نہ مکاں رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments