14 اگست 2021: ملک ملا لیکن آزادی نہیں


آج جب ہم پاکستان کے قیام کی جدوجہد، قربانیوں اور قائم ہونے کے بعد کے حالات و واقعات اور پس پردہ عوامل کو دیکھتے ہوئے آٹھویں عشرے سے گزرتے ملک اور عوام کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گورا صاحب نے ہمیں ایک ملک کا خطہ ضرور دیا لیکن آزادی نہیں دی۔ انگریز بہادر نے خود ملک کو چلانے کے بجائے بالوسطہ ملک کو چلانے کا طریقہ کار رائج کرایا۔ آج پاکستان کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہر محب وطن شہری ملک کی ابتر حالت سے پریشان اور مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے لیکن اکثر یہ نہیں جانتے کہ اس صورتحال سے کیسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

ممتاز و معروف دانشور جاوید احمد غامدی نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے اس مسئلے کو یوں بیان کیا ہے کہ اس کی تمام حقیقت اور صورتحال واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ

برطانیہ عظمی کا ہم نے انتخاب نہیں کیا تھا کہ وہ یہاں آ کر ہم ہر حکومت کریں، فتوحات کے اصول پر ہی وہ لوگ آئے اور قابض ہو گئے، اب یہاں انہوں نے آ کر مقامی فوجیں بنائیں، پھر چھوڑ کر چلے گئے، جب چھوڑ کر گئے تو کیا چھوڑ کر گئے؟ یعنی بادشاہت چلی گئی، جس دن انگلستان ہندوستان سے روانہ ہوا تو بادشاہ سلامت کا نمائندہ روانہ ہوا، اس دن ہم محکوم ہی تھے، ہمارے اوپر افواج ہی حکومت کر رہی تھیں، وہ ساری کی ساری افواج انگریز نہیں تھی، یہیں سے بھرتی کی گئی تھی، تو جن کو حکومت کرنا سکھایا گیا تھا، انہوں نے جلد ہی حکومت سنبھالنے کی کوشش کی۔

ہندوستان میں لیڈر شپ بہت مضبوط ہو چکی تھی، روایات بہت بہتر ہو چکی تھیں، بحیثیت مجموعی قوم بھی کچھ تربیت پا چکی تھی، اور جو جمہوری نظام کو چلانے کی ایک بڑی ضرورت ہوتی ہے، ایک اچھی منظم سیاسی جماعت، کانگریس یہ حیثیت اختیار کر چکی تھی، اس لئے وہاں کامیابی نہیں ہوئی بندوق والوں کو، پاکستان میں انہوں نے قبضہ کر لیا، اور اس قبضے کی سکیم (منصوبہ) پہلے دن سے ہی بننی شروع ہو گئی، اگر آپ تاریخ کو پڑھیں تو قائد اعظم کے ہوتے ہوئے، ہماری بدقسمتی بھی ہوئی، اگر وہ کچھ دیر رہتے، آئین بن جاتا، ان کے ذریعے سے نافذ ہو جاتا، ان کے جانشین معاملات کو سنبھال لیتے تو شاید بچ جاتے، پہلے تو بیوروکریسی کا اور بندوق والوں کا گٹھ جوڑ ہوا، اسی کو ہم مقتدرہ، اسٹیبلشمنٹ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں تاکہ کم سے کم بندوق سے محفوظ رہیں، اچھا لفظ ہم نے ایجاد کر لیا ہے، تو حکومت کی ابتداء کر دی انہوں نے، بیوروکریسی کے لوگ اقتدار میں آئے آہستہ آہستہ اور پھر براہ راست آ گئے، اب اس کے بعد طے ہے کہ ہم براہ راست حکومت کریں گے یا بالواسطہ حکومت کریں گے، حکومتیں بظاہر حکومتی چہرے کے ساتھ ہماری مرضی سے بننی چاہئیں، ہماری مرضی سے بگڑنی چاہئیں، یہ کشمکش ہے جو یہاں جاری ہے۔

غامدی صاحب نے بتایا کہ میں نے پچھلے دنوں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ پاکستان کے، ہمارے ملک کے اور بہت سے جگہوں پر یہ صورتحال ہے، دو بنیادی مسئلے ہیں، ”میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی“ ، ابتداء سے پیدا ہو گئے ہوئے ہیں، ایک یہ کہ بندوق یہاں لوگوں کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، بادشاہت نے اس کو وجود بخشا تھا اور وہ اب بھی اسی طریقے سے سوچتی ہے اور یہی دیکھتی ہے، وہ اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ قائد اعظم نے ایک جمہوری طریقے سے پاکستان بنایا تھا، جمہوری روایات قائم کی تھیں، ایک سیاسی جماعت بنائی تھی، ایک سیاسی جماعت نے آزادی کی تحریک چلائی تھی، ایک طرف وہ ہے اور ایک طرف یہ ہے، تو کشمکش ہے، یہ ہمارے ملک کے لئے سب سے خطرناک ہے۔

دوسرا مذہبی اور قومی ریاست، یعنی پاکستان تاریخی لحاظ سے ایک قومی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ہے، لیکن یہاں کا مذہبی طبقہ اس کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتا ہے، اب اس سے ایک کشمکش پیدا ہوئی ہے، تو ہر جگہ آپ کو اس کشمکش کے آثار نظر آئیں گے، یعنی جیسے حکومت بظاہر جمہوری لگتی ہے لیکن یا پیچھے بندوق ہوتی ہے یا دل چاہتا ہے تو آگے بھی آ جاتی ہے، اسی طریقے سے بظاہر آپ کا آئین ایک جمہوری آئین ہے لیکن اس کے ساتھ ایک مذہبی آئین بھی ہے، اس کا ایک ملغوبہ ہے جو ہم نے تیار کر رکھا ہے، یہ دونوں چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں سرایت کیے ہوئے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ لوگ بھی اسی کے عادی ہیں، وہ محکومی کے خوگر ہو چکے ہوئے ہیں، ان کے اندر ابھی جمہوریت کا، جمہوری اقدار کا، آپ کو، عام آدمی کو اس کا اختیار دیا گیا ہے ناں، جمہوریت کیا ہے، عام آدمی کو اختیار دیا گیا ہے، حکومت تم ہو، تمہیں فیصلہ کرنا ہے، تمہارے فیصلے کو برتری حاصل ہے، بندوق تمہارے ماتحت رہے گی، بندوق سے یہ منوانا کوئی آسان کام ہے؟ یعنی آدمی کے پاس بندوق ہو اور ہم نہتے اس کو لیکچر دے رہے ہیں، فلسفہ جھاڑ رہے ہیں، کیا حیثیت ہے اس کی؟

اور پھر وہ فلسفے بناتا ہے کہ اصل میں تو میں ہوں جو تمہاری حفاظت کر رہا ہوں، میں ہوں جو تمہارے لئے کام کر رہا ہوں، یہ میرا فیضان ہے، بادشاہ کیا کرتے تھے؟ ظل الہی، اصل میں بندوق اور بندوق کے اوپر بیٹھا ہوا بادشاہ یا بندوق کے اوپر بیٹھا ہوا سپہ سالار، وہ اصل میں صاحب کرانی، خلد آشیانی ہوتا ہے ہمیشہ، یعنی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب، وہی ہوتا ہے جو لوگوں کو یہ تاثر دیتا ہے، پروپیگنڈے کی مشینری اس کے پاس ہوتی ہے، بادشاہت ایسے ہی قائم ہوتی ہے، آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک آدمی کے بعد اس کے بیٹے کو ہم اپنے سر کا تاج بنا لیں؟

ہے ناں حماقت؟ کرتے رہے نا لوگ، اب بھی کرتے ہیں، بلکہ آپ دیکھیں کہ مغربی دنیا میں آئینی اختیارات دیے گئے ہیں لیکن ہے تو، اگر آپ علم و عقل کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ملکہ عالیہ کیا کر ہی ہیں؟ یہ بادشاہ سلامت کیا کر رہے ہیں؟ ان شہزادوں کی کیا ضرورت ہے؟ ہے نا یہ سوال؟ لیکن انسان بھی محکومی کا خوگر ہے اور یہ ساری چیزیں بھی اسے ایک حد تک فیسینیٹ کرتی ہیں، طاقت کی وہ پرستش بھی کرتا ہے، طاقت اسے اچھی بھی لگتی ہے، طاقت کا ظہور ہوتا ہے تو اس کے اندر ایک خاص جذبہ پیدا ہوتا ہے اس کے لئے، وہ طاقت کی پوجا کرتا رہا ہے صدیوں تک۔

تو یہ ساری نفسیات ہے جو اصل میں بندوق والوں کے ہاں بھی ہے اور جن پر وہ حکومت کر رہے ہیں ان کے لئے بھی ہے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بالکل ساتھ یعنی ہندوستان میں سیاسی قوتوں نے یہ بات ایک حد تک منوا رکھی ہوئی ہے، یعنی وہ بھی ظاہری میں منوا رکھی ہے لیکن بڑی حد تک منوا رکھی ہے، ہم اس کو نہیں منوا سکے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ہماری قوم ہے، اس وقت بھی آپ دیکھیں کہ لوگ قصیدے پڑھتے ہیں، لوگ ان کو مسیحا سمجھتے ہیں، یعنی جن کو نفرت کا ہدف بن جانا چاہیے، وہ مسیحا!

اور اس کے بعد ، دیکھئے بندوق، بادشاہت، استبداد، آمریت، یہ کہے گی آپ کو کہ ہم قانون کی پابندی کر رہے ہیں، یہ قانون شکنی کرے گی آپ کے ساتھ، یہ سازشیں کرے گی آپ ساتھ، اس کی ہزاروں سال تک پھیلی ہوئی تاریخ ہے، اس لئے کسی باضمیر آدمی کو ایک لمحے کے لئے بھی اسے قبول نہیں کرنا چاہیے، اور اعلان کرنا چاہیے اس بات پر کہ بادشاہی یا خدا کے ہاتھ میں ہے یا ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن پر حکومت قائم ہونی ہے۔ لیکن آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ بات آسانی سے مانی جائے گی؟ اس کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

میں شخصیت پرستی نہیں اعتراف شخصیت کا قائل ہوں۔ غامدی صاحب کے یہ جملے ہر محب وطن کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ایسی بات سیاستدان نہیں کرتے۔ سیاستدان موقع محل کے مطابق ہمیشہ قلیل مقدار میں ہی سچ عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ غامدی صاحب نے پاکستان کے مسائل کی تمام حقیقت کھول کر سامنے رکھ دی ہے جو پاکستان کی کمزوری اور نامرادی کے بھیانک نتائج دکھا رہی ہے۔ غامدی صاحب ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ہمیں رہنمائی تو میسر ہے، لیکن عوام غاصب طاقت کی نفی کرنے، رہنما کے پیچھے متحد ہو کر چلتے ہوئے ابھی یہ کردار اپنانے کو، عمومی طور پر تیار نہیں ہیں۔ محب وطن عوام کی تحریک پاکستان ختم نہیں ہوئی، جاری و ساری ہے اور یہ یقین ہے کہ ملک کی طرح ہمیں آزادی بھی ضرور حاصل ہو گی، تاہم عوام کو اپنے پروپرائیٹری حقوق والی ریاست کی حاکمیت کا مقام حاصل کرنے کے لئے مزاحمتی شعور کو فروغ دینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments