پاکستان۔ خدائی معجزہ


قوم کل اپنا 75واں یوم آزادی کامل شعور کے ساتھ منائے گی کہ آزادی دنیا کی سب سے عظیم نعمت ہے جس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ آج کی نسل اس حقیقت سے واقف ہی نہیں کہ تشکیل پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی مشیت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہر شے برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف جا رہی تھی۔ تاریخ کا دھارا مخالف سمت میں بہہ رہا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کسی حال میں بھی نوآبادیات کو اقتدار منتقل کرنے پر تیار نہیں تھی۔

ہندو تعداد میں مسلمانوں سے تین گنا زیادہ اور تعلیم، صنعت و حرفت، تجارت اور سرکاری ملازمتوں میں بہت آگے تھے۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے تحت اپنے آپ کو سیاسی طور پر منظم کر لیا تھا اور انہیں گاندھی جی کی شخصیت میں ایک ایسی قیادت میسر آ گئی تھی جس نے ایک طرف ’اہنسا‘ (عدم تشدد) کا فلسفہ پیش کیا اور عالمی برادری میں شہرت پائی اور دوسری طرف ہندو قوم ان کی پرستش کرنے لگی۔

مسلمان جنہوں نے برطانوی حکومت کی چیرہ دستیوں کا جان پر کھیل کر مقابلہ کیا تھا، وہ سیاسی اور ذہنی اعتبار سے کئی دھڑوں میں تقسیم تھے۔ انگریز حکمران ان کے مقابلے میں ہندوؤں کو ترجیح دیتے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں جو زیادہ تر جذبات کی پیداوار تھیں۔ ان میں تحریک خلافت اور تحریک مجاہدین نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور بڑے بڑے مقرر اور خطیب پیدا کیے، مگر وہ قوم کے مستقبل کا کوئی واضح لائحہ عمل نہ دے سکے۔

واضح نصب العین کی پہلی سنجیدہ کوشش دسمبر 1906 میں اس وقت ہوئی جب نواب آف ڈھاکہ جناب سلیم اللہ نے پورے برصغیر سے دو ہزار کے لگ بھگ مندوبین کو ایک اجتماع میں ڈھاکہ آنے کی دعوت دی۔ افتتاحی اجلاس میں جناب وقار الملک نے اپنے صدارتی خطبے میں حاضرین کی توجہ اس نازک ترین مسئلے کی طرف مبذول کرائی کہ جب انگریز ہندوستان چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کو ہندوؤں کی بے رحم اکثریت کا سامنا ہو گا۔

اس گمبھیر صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں آج منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اس تاریخی اجتماع میں جناب آغا خاں کی زیرصدارت آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی۔ اس عظیم الشان پیش رفت سے چند ہی ماہ پہلے آغا خاں کی قیادت میں مسلم زعما کا ایک وفد وائسرائے ہند سے ملا اور مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق دینے کا مطالبہ کیا جو تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح برصغیر میں یہ اعلان مسلم قومیت کا سنگ بنیاد ثابت ہوا۔

ہندوستان کی سیاست میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی جا رہی تھیں۔ قائداعظم جنہیں 1916 میں سفیر امن کا خطاب ملا تھا کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں کامیاب رہے تھے، مگر وہ ہندو قیادت کی تنگ نظری اور وعدہ خلافی سے عاجز آ کر انگلستان چلے گئے۔ ان دنوں مجلس احرار کا بڑا غلغلہ تھا جس کی قیادت جناب عطاء اللہ شاہ بخاری کر رہے تھے جو بے بدل خطیب اور مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کے خلاف تھے۔ یہی عالم جمعیت علمائے ہند کا تھا، گویا اس عہد کی متحرک مسلم طاقتیں مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کے قیام کی مخالف تھیں، البتہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے آخری آپشن کے طور پر تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا تھا۔

ان حالات کے برعکس، اللہ تعالیٰ کی مشیت کچھ دوسرے ہی حالات پیدا کرتی جا رہی تھی۔ برصغیر میں تین ایسی عہد ساز شخصیتیں ابھر کر سامنے آئیں جنہوں نے مختلف حیثیتوں میں تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ یہ شخصیتیں سر سید احمد خان، حکیم الامت علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح پر مشتمل تھیں۔ ان کے علاوہ عالمی سطح پر ایک ایسا شخص قدرت الٰہی سے نمودار ہوا جس نے قیام پاکستان کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جس کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے تھے۔

اس کا نام ہٹلر تھا۔ اس نے بہت طاقت ور برطانیہ کا بھرکس نکال دیا اور اسے بدترین شکست سے بچنے کے لیے امریکہ سے امداد طلب کرنا پڑی۔ 1942 میں برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکی صدر روزویلٹ (Roosevelt) سے معاہدہ کیا کہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد وہ تمام نوآبادیات کو آزاد کر دیں گے۔ چرچل جو کسی قیمت پر ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، انہیں امریکہ کے سامنے سرنڈر کرنا پڑ۔ جنگ ختم ہوئی، تو برطانیہ میں لیبر پارٹی کے قائد مسٹر اٹیلی (Attlee) برسراقتدار آ گئے جو ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے، مگر انہیں مسلمانوں کی زبردست انتخابی طاقت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا اور 14 ؍اگست 1947 کی شب پاکستان معرض وجود میں آ گیا حالانکہ مسٹر گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میری لاش ہی پر بن سکے گا۔

اس دوران قائداعظم اپنی قوم کے مزاج میں عظیم تغیر لا چکے تھے۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں پیش کیا، قائداعظم نے اسے لاہور کے تاریخ ساز اجلاس منعقدہ 1940 میں قومی نصب العین قرار دیا اور محض سات سال کی مدت میں اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دراصل قدرت انہیں ایک عظیم الشان مقصد کے لیے تیار کر رہی تھی۔

والدین نے ان کا نام محمد علی رکھا تھا اور یوں محمدﷺ کی ذات والا صفات اور اسلام ان کی زندگی میں روح کی طرح داخل ہو گئے۔ انہوں نے کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور یوں بچپن ہی سے اسلام کے ساتھ تعلق گہرا ہوتا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے لندن کے اس ادارے سے قانون پڑھا جس کے صدر دروازے پر یہ جملہ درج تھا ”محمدﷺ دنیا کے سب سے بڑے قانون دان ہیں۔“ وہ اسلام کے زبردست شیدائی اور جاں نثار سپاہی تھے۔

ان کی جدوجہد سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی تھی اور انہوں نے ریڈیو پر اہل لاہور سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسلام کی جدید تجربہ گاہ قائم ہو گئی ہے جس کے ذریعے اسلام کے قانون، معاشی نظام اور تمدن کا اطلاق کیا جائے گا۔ ہمیں قائداعظم کے اس مشن کو مکمل کرنے کا عہد یوم آزادی کے موقعہ پر کرنا اور اسے اپنا نصب العین بنا لینا چاہیے کہ خدائی معجزے کی یہی سب سے بڑی طاقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments