کیا ویسٹ انڈین ٹیم 44 سال بعد پاکستان کو جمیکا میں شکست دے پائے گی؟


پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کا پہلا ٹیسٹ جمعرات سے سبائنا پارک جمیکا میں شروع ہو گا. یہ سیریز پاکستان کے لیے اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ اس میں کامیابی گرین شرٹس کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں بہتر پوزیشن دلوا دے گی۔

رواں سال پاکستان نے جنوبی افریقہ اور زمبابوے کو انہی کے ملک میں شکست دی تھی۔ حالانکہ زمبابوے کے خلاف سیریز ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ نہیں تھی، لیکن اس سے قومی ٹیم کو اپنا کمبی نیشن بنانے میں مدد ملی۔

اگلے دو سال میں پاکستان نے جن تین ٹیموں کے ساتھ ‘اوے’ (اپنے ملک سے باپر) ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں ان میں ویسٹ انڈیز کے علاوہ بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں۔ ان میچز میں اچھی کارکردگی اور کامیابی سے پاکستان کو وہ پوائنٹس ملیں گے جس سے اسے اپنی پوزیشن بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔

کنگسٹن جمیکا کے سبائنا پارک میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو آخری مرتبہ 1977 میں شکست دی تھی۔ اس کے بعد وہاں ہونے والے دونوں میچز میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی۔

اگر پہلا ٹیسٹ میچ بارش کی نذر نہ ہوا تو بابر اعظم الیون اس گراؤنڈ پر کامیابیوں کی ہیٹرک کرنے کی کوشش کرے گی۔

اس کے ساتھ ہی سیریز میں کپتان بابر اعظم کے پاس یہ موقع بھی ہے کہ وہ تینوں فارمیٹ میں سنچری کرنے والے پاکستانی کپتان بن سکتے ہی۔ وہ ونڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں تو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے سنچری اسکور کرچکے ہیں لیکن ٹیسٹ میں ابھی انہیں یہ اعراز حاصل نہیں ہوا ہے۔

پریکٹس سیشن بارش سے متاثر، ‘پاکستان فیوریٹ قرار’

ویسٹ انڈین ٹیم کے کوچ فل سمنر نے میچ سے قبل پاکستانی ٹیم کو فیوریٹ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بارش کی وجہ سے پریکٹس کا منسوخ ہونا افسوس ناک تھا۔

ان کے بقول، وہ پُرامید ہیں کہ ان کی ٹیم بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرے گی۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان آخری ٹیسٹ سیریز میں گرین شرٹس کی نمائندگی مصباح الحق نے کی تھی۔ جو اس وقت ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔ ان کے لیے بہتر بیٹنگ کمبی نیشن ایک چیلنج ہے جب کہ محمد عباس کی واپسی نے بھی فائنل الیون کے لیے انتخاب مشکل کردیا ہے۔

پاکستان ٹیم میں ممکنہ طور پر عابد علی اننگز کا آغاز کریں گے۔ انہوں نے زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ڈبل سنچری اور ففٹی اسکور کی تھی۔ ان کا ساتھ دیں گے عمران بٹ، اگرچہ ان کی کارکردگی ابھی زیادہ متاثر رہی نہیں لیکن یہ سیریز ان کے لیے ایک امتحان ہو گی۔

ٹیسٹ میچ میں گرین شرٹس کے مڈل آرڈر بیٹنگ کا دار و مدار کپتان بابر اعظم، سابق کپتان اظہر علی، فواد عالم اور وکٹ کیپر محمد رضوان پر ہو گا، یہ چاروں کھلاڑی کسی بھی میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر پاکستان ٹیم کی بالنگ کی بات کی جائے تو ٹیسٹ سیریز سے قبل بارش کی وجہ سے دونوں ٹیموں کے پریکٹس سیشن متاثر ہوئے۔ لہٰذا ٹیم کے کپتان کے لیے ایسی ٹیم کا انتخاب مشکل ہو گا جس نے ویسٹ انڈیز میں ‘ریڈ بال’ کرکٹ نہ کھیلی ہو۔

پاکستان کے گزشتہ دورے میں یاسر شاہ نے تین ٹیسٹ میچ میں 25 وکٹیں حاصل کی تھیں جب کہ محمد عباس بھی 15 وکٹوں کے ساتھ نمایاں رہے تھے۔ یہ دونوں کھلاڑی اس وقت قومی ٹیم کا حصہ ہیں اور تجربے کی بنیاد پر یہ فائنل الیون کا حصہ ہو سکتے ہیں۔

ان کے علاوہ فاسٹ بالرز حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی بھی اس وقت ٹیسٹ کرکٹ میں اچھی فارم میں ہیں۔ اگر انہیں اور لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی کو فائنل الیون میں شامل کیا گیا تو پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی دکھا سکتی ہے۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے ٹیسٹ میچز کی تاریخ پر ایک نظر

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان اب تک 52 ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں جن میں 20 میں پاکستان اور 17 میں ویسٹ انڈیز نے کامیابی سمیٹی، 15 میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگئے۔

مجموعی طور پر گزشتہ 15 برسوں میں دونوں ٹیمیں جب بھی آمنے سامنے آئی ہیں، میچ کا نتیجہ نکلا ہے۔ ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان آخری میچ 2006 میں ملتان میں ڈرا ہوا تھا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان آخری 10 میچز میں سے چھ پاکستان نے اور تین ویسٹ انڈیز نے 3 جیتے جبکہ ایک میچ ڈرا ہوا۔

میزبان ٹیم کو ہوم گراؤنڈ کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے کیوں کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کیریبن سرزمین پر اب تک 26 میچز کھیلے گئے ہیں جن میں سے ویسٹ انڈیز کو 12 اور پاکستان کو سات میں کامیابی ملی ہے۔ سات میچز ڈرا بھی ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پردونوں ممالک کے درمیان 17 سیریز ہوئی ہیں، جس میں چھ میں پاکستان اور پانچ میں ویسٹ انڈیز نے کامیابی سمیٹی۔

ویسٹ انڈیز نے اپنی سرزمین پر پاکستان کو چار بار سیریز میں شکست دی ہے، اس کے علاوہ 1988، 2005 اور 2011 میں سیریز ڈرا کرنے کے بعد پاکستان نے 2017 میں پہلی مرتبہ ویسٹ انڈیز کو انہی کی سر زمین پر شکست دی تھی۔

کیا اظہر علی سر ویوین رچرڈز اور انضمام الحق کے کلب کا حصہ بن پائیں گے؟

ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان سیریز کی خاص بات دونوں ممالک کی جانب سے بڑی انفرادی اننگز کا ریکارڈ ہے۔

پاکستان کے حنیف محمد نے 1958 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاؤن ٹیسٹ میں 337 رنز اسکور کیے تو وہ اس وقت دنیا کے بڑے انفرادی اسکورز میں سے ایک تھا۔

البتہ صرف ایک ٹیسٹ کے بعد ویسٹ انڈیز کے گیری سوبرز نے حساب برابر کرتے ہوئے 365 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر ریکارڈ بکس میں جگہ بنالی، ان کا یہ ریکارڈ بعد میں انہی کے ہم وطن برائن لارا نے توڑا۔

سر گیری سوبرز نے ٹرپل سنچری اسی گراؤنڈ پر اسکور کی جہاں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں مدمقابل ہونے جارہی ہیں، پاکستانی اسکواڈ میں ایک کھلاڑی ایسا بھی ہے جو ویسٹ انڈیز کے خلاف ناقابل شکست ٹرپل سنچری اسکور کرچکا ہے، اور آج بھی بڑی اننگز کھیلنے کے لئے بے تاب ہے۔

2016 میں ٹرپل سنچری بنانے والے اظہر علی کے لیے یہ سیریز اہم ہو گی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف انہوں نے اب تک آٹھ میچز میں 59 اعشاریہ 26 کی اوسط سے 889 رنز بنائے ہیں۔ جس میں تین سنچریاں، اور چار نصف سنچریاں شامل ہیں۔

اظہر علی اگر سیریز مییں 111 رنز بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو محمد یوسف، برائن لارا، انضمام الحق، ویوین رچرڈز اور یونس خان کے بعد 1000 رنز بنانے والے پانچویں بیٹسمین بن جائیں گے۔

دونوں ممالک کے درمیان سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ آج بھی پاکستان کے محمد یوسف کے پاس ہے جنہوں نے آٹھ میچز میں 101 اعشاریہ 16 کی اوسط سے ایک ہزار 214 رنز بنائے ہیں۔ جس میں سات سنچریاں اور تین نصف سنچریاں شامل ہیں۔

سابق ویسٹ انڈین کپتان برائن لارا 12 میچز میں 53 اعشاریہ 31 کی اوسط سے ایک ہزار 173 رنز بناکر دوسرے نمبر پر ہیں، جبکہ پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق کا تیسرا نمبر ہے جنہوں نے 15 میچز میں، 53 اعشاریہ 52 کی اوسط سےایک ہزار 124 رنز اسکور کیے ہیں۔ برائن لارا اور انضمام الحق دونوں نے چار چار سنچریاں اسکور کی تھیں۔

موجودہ ویسٹ انڈین اسکواڈ میں روسٹن چیس پاکستان کے خلاف چھ میچز میں 538 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز ہیں، کپتان کریگ بریدرویٹ 7 میچز میں 444 رنز بناکر دوسرے نمبر پر ہیں۔

میچ کا پانسہ پلٹنے والے بالر

بالرز کی بات کی جائے تو اس وقت دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے میچز میں سب سے زیادہ وکٹیں پاکستان ٹیم کے سابق کپتان اور موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کی ہیں، جنہوں نے 18 میچز میں 82 وکٹیں حاصل کیں۔ سابق کپتان وسیم اکرم 17 میچز میں 79 وکٹیں اور کورٹنی والش 18 میچز میں 63 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔

البتہ موجودہ کھلاڑیوں میں اگر کسی کے پاس اپنی جادوئی بالنگ سے میچ کا پانسہ پلٹنے کا ہنر ہے تو وہ پاکستانی لیگ اسپنر یاسر شاہ ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان سیریز میں وہ اب تک چھ میچز میں 46 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔ وہ پانچ مرتبہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں اور ایک مرتبہ میچ میں دس وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔

دوسری جانب موجودہ ویسٹ انڈین اسکواڈ میں صرف جیسن ہولڈر ہیں جن کے پاس پاکستانی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا تجربہ ہے، وہ اب تک چھ میچز میں پاکستان کے 19 کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھیچ چکے ہیں۔

چھ ہی میچز میں 25 وکٹیں لینے والے شینن گیبرئیل زخمی ہونے کے باعث اس سیریز میں اسکواڈ کا حصہ نہیں بن پائے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments