دو قومی نظریہ کی تشکیل میں جغرافیے کا کردار


گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں بے مثال شگفتہ نگار شفیق الرحمان نے ڈینیوب دریا پر ایک تحریر لکھی تھی اور اس میں اپنے مخصوص انداز میں بلقان کا، جسے یورپ کا بارود خانہ کہا جاتا تھا، نقشہ کچھ یوں کھینچا تھا:

”بلقان کے وسیع علاقے میں طرح طرح کے لوگ رہتے ہیں جن کے لباس مختلف ہیں۔ زبان، بود و باش، مذہبی عقیدے سب مختلف ہیں۔ اگر یہ اپنے اپنے ملکوں میں رہتے تو کوئی بات بھی تھی لیکن رومانیہ والے بلغاریہ میں رہتے ہیں اور بہت سے بلغاریہ والے ترکی میں۔ اور سب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم کسی اور جگہ سے آئے ہیں۔۔۔ بہر حال یہ اپنے نام کے ساتھ پرانے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتے۔ جیسے کہ بہت سے حضرات غزنوی، بخاری، بغدادی، کرمانی وغیرہ کہلاتے ہیں۔“

 اسی طرح ڈینیوب کے کناروں پر لڑی جانے والی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ان سے جی بھر جاتا ” تو سب بادشاہ، نواب، ڈیوک اکھٹے ہو کر کانفرنس کرتے۔ کبھی ایک ایک ملک کے دو دو حصے کر دیے جاتے تو کبھی تین کے دو بنا دیے جاتے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے موریویا اور بوہیمیا کو سرے سے غائب کر دیا گیا۔ مقدونیہ کو یوگوسلاویہ میں شامل کر دیا گیا، ادھر آسٹریا میں چیکوسلوواکیہ کو جمع کرکے پھر تفریق کر دیا گیا“۔

اس تحریر کو چھپے ابھی چار دہائیاں بھی نہیں گزری تھیں کہ بلقان میں ایک بار پھر جمع تفریق شروع ہو گئی۔ یوگوسلاویہ، کرنل محمد خاں کے الفاظ میں، جغرافیہ سے نکل کر تاریخ میں چلا گیا۔ چیکو سلوواکیہ کئی بار کی جمع تفریق کے بعد آج چیک ریپبلک اور سلوواکیہ کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کی صورت میں موجود ہے۔

بلقان کا کیا مذکور کرہ زمین پر کتنے ہی ممالک موجود ہیں جو بہت ہی غیر اہم وجوہ کی بنا پر اپنی الگ شناخت قائم کیے ہوئے ہیں۔ کینیڈا اور امریکہ کو ہی لے لیجیے۔ دونوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں، نہ رنگ کا، نہ نسل کا، نہ مذہب کا، نہ زبان کا، نہ تہذیب و ثقافت کا۔ سرحد پار کریں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ دوسرا ملک شروع ہو گیا ہے۔ بس اتنی سی وجہ ہے کہ جب اٹھارویں صدی میں امریکہ میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو جو لوگ تاج برطانیہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنا چاہتے تھے وہ شمال کی طرف چلے گئے اور الگ ملک قائم کر لیا۔ شروع میں ایک دو جنگیں بھی لڑیں مگر اب بہت عرصے سے امن چین سے رہ رہے ہیں۔

اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کرہ ارض پر جتنے بھی ممالک ہیں ان میں کسی کا کوئی منطقی جواز ہے، نہ تاریخی، نہ ثقافتی اور نہ تہذیبی۔ خدا نے صرف زمین کو پیدا کیا تھا اس پر یہ لکیریں جنہیں سیاسی سرحدوں کا نام دیا جاتا ہے انسانوں کی کھینچی ہوئی ہیں اور یقینا ان لکیروں کے کھینچنے والوں کی ڈرائنگ اچھی نہیں تھی کیونکہ یہ لکیریں بہت ٹیڑھی میڑھی ہیں۔ کسی ملک کی کوئی فطری سرحد نہیں ہوتی۔ خالق کائنات نے سمندر، دریا اور پہاڑ اس لئے نہیں پیدا کئے تھے کہ وہ بنی نوع انسان کی سیاسی تقسیم میں سہولت پیدا کریں۔ اس لئے کسی ملک کی سرحد کو فطری اور کسی سرحد کو غیر فطری قرار دینا بالکل غلط ہے۔ تمام ممالک مختلف تاریخی حوادث کی پیداوار ہیں اور مختلف سیاسی اکائیوں سے بڑھ کر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی بنا پر یہ سرحدیں بدلتی رہی ہیں اور شاید آئندہ بھی بدلتی رہیں گی۔

پاکستان کو معرض وجود میں آئے سات دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں مگر یہاں ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ یہ ملک صحیح بنا تھا یا غلط۔ حصول پاکستان کی تحریک کے دوران میں بلکہ حصول پاکستان کے بعد بھی ہمارے سیاستدانوں، مذہبی علما اور دانش وروں کویہ ضروررت پیش آتی رہی کہ وہ مطالبہ پاکستان کا عقلی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی جواز فراہم کریں۔ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مطالبہ پاکستان کے دوران میں اور اس کے حصول کے بعد بھی ہمارا رویہ معذرت خواہانہ رہا ہے۔ ہمیں ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں ضرورت محسوس ہوتی تھی اور ہو رہی ہے کہ ہم اپنے مطالبہ کا مضبوط تاریخی اور ثقافتی جواز تلاش کریں۔ چنانچہ اس کا ایک جواز مذہبی طبقے نے اور دوسرا جدید تعلیم یافتہ دانش وروں نے فراہم کیا ہے۔ میری رائے میں یہ دونوں جواز نہ صرف باہم متضاد ہیں بلکہ غلط اور ناکافی بھی ہیں۔

 مذہبی طبقے کے نزدیک تقسیم بر صغیر کے لئے اتنا جواز کافی تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ اقوام ہیں کیونکہ ان کا مذہب، ان کے رسوم و رواج اور ان کی معاشرت مختلف ہے۔ اس بات کو ہم نے زیادہ سادہ انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ پاکستان کی اساس اسلام پر ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے ہم ایک بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اگر ہم اسلام کی بنیاد پر ایک طرف سرحد قائم کریں گے تو دوسری طرف کی سرحد مٹانی پڑے گی۔ اگر ہندوؤں سے علیحدہ ہونے کے لئے اختلاف مذہب کافی ہے تو ایران و افغانستان کی طرف سرحد کا کیا جواز ہے؟ اسلام آفاقی اور عالمگیر دین ہے جو جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں ہے۔ نہ اسلام کا کوئی ایسا تقاضا ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک ہی مملکت میں رہنا چاہئے یا مسلمان الگ الگ ملکوں میں تقسیم ہو کر نہیں رہ سکتے۔ مزید برآںہماری تاریخ کا انتہائی المناک اور خوں چکاںواقعہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ہے حالانکہ اسلام تو دونوں کے مابین مشترک ہی تھا۔

جدید تعلیم یافتہ دانش ور جو خود کو سیکولر قرار دینے کے شوقین ہیں اس کا جواز تہذیب و ثقافت میں تلاش کرتے ہیں اور اس ثقافت کے ڈانڈے ہڑپہ اور موہن جوڈیرو سے ملاتے ہیں۔ یہ لو گ اس نظریے کے حامی ہیں کہ پاکستان دراصل وادی سندھ کی روح کا مظہر ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی تاریخ وادی سندھ کی تاریخ ہے اور پاکستان اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ وادی سندھ کی تہذیب۔ ہند اور سندھ زمانہ قدیم سے ہی کبھی ایک نہیں رہے بلکہ دو جداگانہ تہذیبوں کے نمائندہ رہے ہیں۔ اس نظریہ کی رو سے ہماری شناخت اسلام سے نہیں بلکہ ہڑپہ اور موہن جو ڈیروسے وابستہ ہے۔ یہ دعویٰ تاریخ قدیم و جدید دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرکسی زمانہ میں ہند اور سندھ جدا جدا رہے ہیں تو بہت سے تاریخی ادوار میں متحد بھی رہے ہیں۔ اگر مختلف تاریخی ادوار میں ان کا الگ الگ ہونا ایک علیحدہ ملک کا جواز بن سکتا ہے تو بہت طویل تاریخی ادوار میں ان کا اکٹھا رہنا ایک ملک کا جواز کیوں نہیںبن سکتا۔ دوسری بات جو ہمارے دانش ور فراموش کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو وہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی سرزمیں پر ہی مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں مشرقی بنگال بھی شامل تھا۔ یہ حضرات غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مشرقی بنگال کی پاکستان میں شمولیت ابتدا ہی سے غلط تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہمارے انگریزی اخباروں میں اس قسم کے بہت مضامین شائع ہوئے تھے جن میں اس بات پر بہت زور دیا گیا تھا کہ قرارداد لاہور میں دو ریاستوں کے قیام کا ذکر تھا۔ گویا قیام پاکستان کے وقت ایک مملکت بنانے کی جس غلطی کا ارتکاب کیا گیا تھا اس کو بالآخر ہم نے بڑی کدوکاوش کے بعد درست کر دیا ہے۔

اس بات سے کوئی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنا پر وجود میں آیا تھا۔ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان کئی صدیوں سے موجود تھے مگر اس وقت ان کے دو جداگانہ اقوام ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ دو قومی نظریہ دراصل نتیجہ تھا بر صغیر میں انگریزوں کی آمد کا۔ انگریزوں کی آمد سے ایک بڑی اہم تبدیلی یہ آئی تھی کہ ہندوستان ازمنہ وسطیٰ سے نکل کر جدید دور میں داخل ہو گیا تھا۔ انگریز اپنے ساتھ جدید ریاست کے ادارے لائے تھے۔ جدید ریاست بیوروکریسی کا ایک وسیع و عریض نظام ہے۔ سرکاری نوکریوں کا ایک لامحدود سلسلہ ہوتا ہے اور یہیں سے وہ مسئلہ جنم لیتا ہے جسے نیشل ازم کا نام دیا گیا ہے۔ یہ فلسفہ نہ تو فطری ہے اور نہ آفاقی۔ تاریخی اعتبار سے بھی یہ درست نہیں ہے۔ ایلائی قدوری نے قومیت کے نظریہ کے منطقی لزوم کو رد کرتے ہوئے اسے منطقی اور عمرانیاتی اعتبار سے اتفاقی قرار دیا ہے۔ اس کی رائے بالکل مبنی پر صداقت ہے کہ قومیت پرستی کا نظریہ انیسویں صدی کے آغاز میں یورپ میں ایجاد ہوا اور یہ بعض جرمن مفکروں کے ذہن کی اختراع ہے۔ ارنسٹ گیل نر بھی اگرچہ نیشل ازم کے نظریے کا حامی نہیں مگر وہ اسے جدید تصور ریاست کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے۔

جدید ریاست میں یہ مسئلہ کس طرح پیدا ہوتا ہے اس کو سمجھنے لیے ذرا تعلیم کے محکمے کو ہی لے لیجیے۔’ تعلیم سب کے لیے ‘ بہت خوش نما نعرہ ہے جس کی ضرورت سے کوئی بھی صاحب فہم انکار نہیں کرے گا۔ مگر ان معاشروں میں جہاں نسل، زبان، مذہب اور ثقافت کابہت زیادہ تنوع ہو یہ نیک مقصد بھی کئی تنازعات کو جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ کون سی زبان ذریعہ تعلیم ہوگی؟ نصاب میں کیا پڑھایا جائے گا؟ نوکریوں پر کون لوگ فائز ہوں گے؟ اس کے ساتھ ریلوے، محکمہ انہار، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور دیگر بہت سے شعبوں کو شامل کر لیجیے۔ اگر کوئی ایک گروہ غالب طور پر مستفیض ہو رہا گا تو دوسروں کے اندر احساس محرومی جنم لے گا اور وہ شکوہ کناں ہوں گے۔

قوم کی تشکیل کا کوئی عقلی اور منطقی اصول موجود نہیں۔ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ دو گروہ اپنے آپ کو کس بنیاد پر مشخص کرتے ہیں۔

ہندوستان میں موجود دو گروہوں نے مذہبی بنیاد پر اپنا تشخص قائم کیا۔ اگرچہ دونوں گروہ مذہب کو اس کے ثقافتی مفہوم میں مراد لے رہے تھے۔ ہندو مت تو کوئی باقاعدہ مذہب تھا ہی نہیں بلکہ مختلف دیوی دیوتاؤں کو ماننے والوں کا گروہ تھا۔ جدید تعلیم یافتہ مسلمان بھی اسی مفہوم میں مسلمان قوم کا ذکر کرتے تھے۔ ان کے نزدیک مسلمان قوم کا فرد ہونے کے لیے مسلمان ہونے کا اقرار کافی تھا۔

یہی وہ مقام تھا جہاں مذہبی طبقات اور جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں خلیج پیدا ہونا شروع ہوئی کیونکہ دونوں مسلمان کا لفظ دو مختلف مفاہیم میں استعمال کر رہے تھے۔ مذہبی طبقات اپنے اپنے مسلک اور فرقے کی بنیاد پر اپنا تشخص قائم کرتے تھے۔ ان کی جماعت کا رکن بننے کے لیے عقاید و اعمال کا اشتراک ضروری تھا۔ اس لیے دیوبندی، بریلوی اور شیعہ مسالک کی اپنی اپنی جماعتیں تھیں۔ مذہبی لوگوں کے نزدیک مسلم لیگ بددین بلکہ قادیانیوں، دہریوں اور شیعوں کی مجسم جماعت تھی۔ 1939ءکے لگ بھگ مسلم لیگ کے لوگوں نے جب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب سے تعاون کی درخواست کی تو انہوں نے تعاون کے لیے چار شرائط بیان کی تھی:

1۔ مسلم لیگ اپنے مقاصد میں نماز کو داخل کرے۔2۔ مسلم لیگ وضع اسلامی کی پابندی تمام ممبروں پر لازم قرار دے۔3۔ خاکساروں سے قطع تعلق کر دے۔4۔ علماءاسلام کے خلاف زہر اگلنے کو اور علماءکی توہین کرنے کو چھوڑ دے۔

مندرجہ بالا چاروں شرائط یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اس وقت کی مسلم لیگ کا طور طریقہ کیا تھا اور اس کو صحیح معنوں میں اسلامی جماعت بنانے کے لیے علمائے دین کے مطالبات کیا تھے۔ اس زمانے میں مذہبی مقررین یہ جملہ عام استعمال کیا کرتے تھے کہ جو لوگ اپنے چھ فٹ کے بدن پر اسلام نافذ نہیں کر سکتے وہ اسلامی ملک کس طرح قائم کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ علمائے دین کو مسلم لیگ پر ایک بڑا اعتراض یہ بھی تھا کہ اس کے جلسوں میں بے حجاب عورتیں شامل ہوتی ہیں۔علما کے نزدیک، اس معاملے پر امت کا اتفاق ہے کہ منصب قیادت کا اہل وہ مسلمان ہے جو عالم اور متقی ہو۔ ظاہر ہے کہ لیگ کی قیادت ،بالخصوص قائد اعظم، اس معیار پر پورا نہ اترتے تھے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کو بھی یہی اعتراض تھا کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر ادنیٰ مقتدیوں تک کوئی بھی ایسا نہیں جو اسلامی معیار پر پورا اترتا ہو۔ البتہ مولانا مودودی صاحب نے لیگ کی جدوجہد کے بارے میں بالکل درست رائے کا اظہار کیا تھا کہ لیگ کے پیش نظرمسلمانوں کی نیشلسٹ ریاست قائم کرنا ہے نہ کہ اسلامی ریاست۔ مولانا کے نزدیک مسلم نیشلسٹ ریاست بھی اتنا ہی غلط تھی جتنا کہ سیکولر نیشلسٹ ریاست۔ اب یہ پتہ نہیں کہ جماعت اسلامی کو قیام پاکستان کے بعد یہ خبر کہاں سے ملی تھی کہ مسلم لیگ نے اسلامی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔

اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنا پر معرض وجود میں آیا لیکن اس دو قومی نظریے میں بنیادی عامل مذہب تھا یا کچھ اور۔ میری رائے میں اس میں بنیادی عامل جغرافیہ تھا۔ اس بات کی تشریح سے پیش تر میں ایک اہم حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ جس وقت مسلم لیگ نے مسلم آبادی کی کثیر تعداد، دس کروڑ، کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا، آج بھارت میں اس سے دوگنا تعداد میں مسلمان موجود ہیں لیکن وہ اپنے علیحدہ قوم ہونے کا کوئی مطالبہ کیوں نہیں کر رہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں بھارت کے کسی علاقے میں اکثریت حاصل نہیں۔ اگر یہی صورت حال بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہوتی تو ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کی آبادی کے باوجود دو قومی نظریہ کبھی وجود میں نہ آتا۔ دو قومی نظریہ صرف اس وجہ سے وجود میں آیا تھا کہ ہندوستان کے دو علاقے، شمال مشرقی اور شمال مغربی، ایسے تھے جہاں مسلمان آبادی اکثریت میں تھی۔ ایک وسیع جغرافیائی خطے میں موجودگی، جدید نیشل ازم کے تصور کی رو سے، اس مطالبے کا جواز فراہم کرتی ہے کہ قومی اور سیاسی سرحدوں میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ قومی اور سیاسی سرحدوں میں ہم آہنگی ہی دراصل مطالبہ پاکستان کا جواز فراہم کرتی تھی۔ قیام پاکستان سے پیشتر متعدد مواقع پر قائد اعظم نے بہت صراحت سے اس بات کو پیش کیا تھا کہ ان علاقوں کے مسلمان، جہاں وہ اقلیت میں ہیں، قوم نہیں بلکہ اقلیت ہیں۔

جب ایک جغرافیائی علاقے میں اکثریت کی حامل آبادی کا علیحدہ وطن کا مطالبہ پورا ہو گیا تو دو قومی نظریے کا جواز بھی ختم ہو گیا تھا۔ اب ایک جمہوری ریاست کے مطالبات اور مقتضیات کچھ اور تھے۔ انہی کو بانی پاکستان نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں بیان کیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ قائد اعظم نہ مذہبی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور نہ سیکولر۔ انھوں نے بالاصرار ایک ہی بات کہی تھی کہ پاکستان ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی جہاں تمام شہریوں کو کسی امتیاز کے بغیر مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ آج ہم پر لازم ہے کہ بانی پاکستان کے اس وژن کو پورا کرنی کی سعی کریں کہ اسی میں ہماری بقا اور فلاح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments