المیہ تو یہ ہے!


ہمارے ملک پاکستان المعروف مملکت خداداد کو قائم ہوئے 74 برس ہو گئے ہیں اور کسی بھی ریاست یا قوم کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کرنے کے لیے یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے پر صد افسوس کہ اس ملک کو چلانے والی قوتوں نے کبھی کبھی درست سمت کا تعین نہیں کیا اور ہمیشہ لیبارٹری سمجھ کر نئے نئے تجربے کرتے گئے، نتیجتا آج اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ پرائم منسٹر سے لے کر پیون تک کوئی بھی اپنی حقیقی ذمہ داریاں خلوص نیت سے نبھاتے ہوئے نظر نہیں آتا اور آئے روز وہ ہی گھسے پٹے قصے، کہانیاں سننے کو ملتی ہیں کہ پاکستان اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے، کچھ ہی عرصے کے اندر دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی پر حقیقت میں اگر حال ابتر کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا کیوں کہ سیاستدان، جرنیل، جج، بیوروکریٹ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹا ملازم ہو المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار نہیں ہاں البتہ دوسروں کے کاموں میں بے جا مداخلت کرنا، باتوں کی حد تک تیر مارنا ہم سب کی روز اول سے مشترکہ قومی مشغلہ رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج آپ اگر کسی سیاستدان، عوامی نمائندے یا کسی لیڈر سے بات کریں اور ملک کی مخدوش صورتحال کے بارے سوال کریں تو وہ اپنے کردار پر پردہ ڈال کر تمام تر تباہیوں اور بربادیوں کا کارن اپنے مخالفین کو قرار دے کر جان چھڑائے گا باقی عوام کے ساتھ جھوٹ بولنا اور آنکھوں میں دھول جھونکا اپنا حق سمجھے گا۔

اسی طرح اگر بات کریں کسی ریٹائرڈ یا حاضر سروس جرنیل کی تو کسی نے آسٹریلیا میں جزیرہ خرید لیا ہوگا، کوئی نیویارک میں اربوں کی پراپرٹی کا مالک نکل آئے گا تو کسے نے دبئی میں عیاشی کا سامان جمع کیا ہوگا پر ان حضرات سے کسی نے کوئی سوال نہیں پوچھنا، یہی حال ہمارے قاضیوں کا ہے جو نہ انصاف کا بول بالا رکھ سکے ہیں اور نہ ہی کبھی غیرجانبدارانہ فیصلے کر کے ملک و قوم کو بچانے کی ہمت کر پائے ہیں، بیوروکریٹس کی تو بات ہی کیا کریں جو آفس جوائن کرنے سے لے کر ریٹائرمنٹ تک رشوت، جھوٹ، دھوکا دہی، سرکاری ریکارڈ میں فارجری سمیت دیگر کئی غیرقانونی کام کر کے لاکھوں، کروڑوں روپے حرام کے کما کر ریٹائر ہو جاتے ہیں، اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھاتے ہیں، بڑی بڑی کوٹھیاں تعمیر کرواتے ہیں، ہذا من فضل ربی لکھواتے ہیں، عمرہ و حج اکبر کی سعادت حاصل کرتے ہیں، سارے گناہ ختم الا الا خیر صلا۔ ملک و قوم کی خدمت ہو گئی۔

المیہ یہ بھی ہے کہ اسلام کے نام پر قائم کردہ ملک میں تجارت مکمل طور پر اسلامی اصولوں کے برعکس ہوتی ہے ہر وہ چیز جس کی ڈیمانڈ بڑھ جائے ذخیرہ کردی جاتی ہے، ہر موقع پر مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، مال فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھانا کوئی غلط کام نہیں سمجھا جاتا، ہر عید یا دیگر مذہبی تہواروں پر مصنوعی طور پر مہنگائی پیدا کردی جاتی ہے پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے پورا کا پورا ملک ہی مافیا بن چکا ہے کیوں کہ جب ریڑھی بان سبزیوں، پھلوں کے اپنے نرخ مقرر کردے یا کوئی دودھ، فروش، مرغی فروش اپنے تئیں ریٹس مقرر کردے تو کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کوئی مشترکہ آئیڈیل معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں گے؟

جب اقتدار میں بیٹھے سیاستدان عوام کو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، ڈرینیج، امن و امان سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی اور جدید نظام کے نفاذ کے بجائے کرپشن میں جت جائیں اوپر سے جھوٹ بھی ببانگ دہل و بلا ناغہ بولتے رہیں تو کیا خاک اصلاحات ہوں گی۔ جب سب توں وڈے تے بڑے اپنے فرائض کے بجائے سیاست میں بے پناہ دلچسپی لے رہے ہوں یا قاضی صاحبان انصاف کے بجائے برسوں انتظار کرائیں تو کیا ایسی ریاست کبھی فلاحی ریاست بھلا بن پائے گی؟

المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی استاد طلبا کو راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتا ہے تو کیا اس استاد کا اپنا کردار آئیڈیل ہے؟ اگر کوئی مذہبی رہنما قوم کو مذہبی فریضے ادا کرنے کی ہدایات کرتا ہے تو کیا اس کی اپنی شخصیت، اعمال اور کردار عین مذہبی ہوتے ہیں؟ اور کیا سماج کو فرقوں میں تقسیم کرنے والوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس ملک کو کبھی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے اہل بھی ہیں؟

آپ کبھی بغور جائزہ لیں ایک دن، ایک ہفتہ، ایک مہینہ اور ایک سال کے دوران ہمارے ملک میں کیسے کیسے انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے مہذب انسانی اقدار کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں مطلب ہمارے معاشرے میں ہر وہ گناہ ہر وہ بدترین اعمال تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں پر باوجود اس کے لوگوں کی اکثریت انفرادی فوائد کے گرد گھومتی سوچ کے دائرے میں زندگی گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں، اجتماعی مسائل کو حل کرنا یا مشترکہ طور پر آواز اٹھانا کوئی نہیں چاہتا ہاں البتہ برننگ ایشوز پر سوشل میڈیا پر ایک دو پوسٹ ڈال کر ہر کوئی اپنی ذمے داری پوری کرنے کی جسارت ضرور کر لیتا ہے۔

بہرحال تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ریاست، ملک و قوم کی حقیقی ترقی مشترکہ اعمال سے منسلک ہوتی ہے اگر اس ملک کے 22 کروڑ نفوس یہ آج 74 برس ضائع کرنے کے بعد بھی یہ اس سوچ کے حامل ہیں کہ انفرادی طور پر منفی سوچ، کام یا اعمال کا اجتماعی نقصان نہیں ہوگا اور خدا انہیں معاف کردے گا تو کچھ غلط نہیں کہ اگلے 74 برس بھی ایسے ہی ضائع ہوجائیں گے، پر شاید اس ریاست کو چلانے والی ظاہری و باطنی قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ تشکیل دیا جائے اور نہ ہی اس ملک کے عوام کے قانونی، معاشرتی و انسانی حقوق فراہم کیے جائیں تا کہ سب آپس میں یوں ہی دست و گریباں رہیں جیسے پچھلی 7 دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں۔

بہرحال! یہ بھی ایک المیہ ہے کہ تمام تر تجربات کے بعد اس ملک میں اب نہ مذہبی قوتیں آئیڈیل رہی ہیں اور نہ ہی خود کو سیکیولر کہلانے والے کوئی تیر مار سکے ہیں نتیجے میں آج صورتحال اس نہج پر ہے کہ ہمارے معاشرے میں نہ تو حقیقی مذہبی اقدار کی فالوونگ نظر آتی ہے اور نہ ہی مثبت جدت پسندی صورتحال یہ ہے کہ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سب چیزیں کہاں آ کر انجام کو پہنچتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments