امریکہ بہادر کی افغانستان سے واپسی اور آج کا پاکستان


یہ جولائی کے آخری عشرے کی خبر ہے کہ طالبان نے جنوب میں اپنے روایتی گڑھ سے دور دیہی علاقوں بالخصوص شمالی اور مغربی افغانستان میں کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ قطر معاہدے کے مطابق امریکی افواج نے اگست کے آخری ہفتے تک افغانستان سے اپنا انخلاء مکمل کرلینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے اہداف تھے جن کے لئے امریکہ بہادر نے افغانستان میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور

20 سالہ طویل دور میں افغانستان میں آگ و خون کا بازار گرم کیے رکھا؟ ادھر ابھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی خبریں سامنے ہی آئیں تو افغانستان بھر میں طالبان کی پیش قدمی کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئیں۔ اطلاعات کے مطابق 407 اضلاع میں سے 200 سے زائد پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور باقی علاقے بھی افغان حکومت کے ہاتھ سے نکلتے دکھائی دے رہے ہیں کہ طالبان اس حوالے سے پوری طاقت کے ساتھ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔

افغانستان میں امریکی دخل اندازی کے معاملہ کو دیکھیں تو اس کی بنیاد اسامہ بن لادن اور دہشت گردی کو بنایا گیا کہ افغانستان جیسے ملک میں بیٹھے طالبان سے امریکہ کو خطرہ نظر آ رہا تھا جس نے نائن الیون جیسے واقعے کو بنیاد بنا کر میڈیا کے ذریعے اپنے حق میں فضا کو ہموار کیا اور پھر امریکہ بہادر نے طاقت کے زور پر دنیا بھر میں اپنے اتحادی بنائے اور سات سمندر پار افغانستان میں آ کر گولہ بارود سے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے۔ اب بیس سال بعد

صدر بائیڈن نے افغان جنگ کو ناقابل فتح قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد اسامہ بن لادن کو سزا دینا اور دہشتگردی کو امریکا کے لیے خطرہ بننے سے روکنا تھا اگر اس بات کو سچ بھی مان لیا جائے تو افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ تو برسوں قبل ابتداء میں ہی ہو گیا تھا اور ان کا جرم تھا القاعدہ کی طرف داری۔ 10 سال قبل ایبٹ آباد پاکستان میں ڈرون حملے کر کے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا چرچا بھی ہو گیا اور عجلت میں امریکہ بہادر نے اسامہ بن لادن کی نعش بھی سمندر برد کردی۔

اور کسی کو دیکھنے تک کی مہلت نہ دی۔ آخر ایک نعش کی منہ دکھائی سے امریکہ بہادر کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔ ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس جدید دور میں ایسے مطلوب ترین شخص کی نعش کو انٹرنیٹ، ویڈیو لنک سیٹیلائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں دکھایا جاتا مگر ایسا نہ کیا گیا۔ مجال ہے جو کسی مہذب ملک نے بھی ایسا نہ کرنے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق سب نے امریکی کہانیوں کو من و عن حق سچ حرف آخر تسلیم کیا۔

”جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے، تم دن کو اگر رات کہو رات کہیں گے“ والا معاملہ ہوا امریکہ کمزور ملکوں کی محبوبہ بن گیا اور اب بیس سال تک ایک کمزور ملک پر اپنی حاکمیت جتلا کر بالآخر واپسی کے موقعہ پر امریکی صدر سے جو افغانستان کی تعمیر و ترقی اور افغان عوام کے معیار زندگی جو بہتر بنانے کی جانب جو سوال ہوا اس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ ان کی ذمہ داری نہ ہے جس کا واضح مطلب مہذب اقوام کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے نزدیک انسان اور انسانی جانوں کی کچھ اہمیت نہ ہے۔

امریکہ کے خطے سے چلے جانے کے بعد مستقبل میں حالات کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے کہ دنیا بھر کے لئے چوہدراہٹ کا شوق رکھنے والے اپنے پیچھے بھی کسی کے لئے امن کا شوق نہیں پالتے۔ امریکہ بہادر افغانستان سے نکل رہا ہے، طالبان افغانستان میں آرہے ہیں یا جا رہے ہیں اس میں اگر بائیس کروڑ پاکستانیوں کو دیکھا جائے تو ان کی ایسے معاملات میں خاص دلچسپی نہ رہی ہے۔ آج کا نوجوان جہاد کے نام پر مخصوص گروہوں کا تر نوالہ بھی نہیں بننا چاہتا آج کا نوجوان اس حوالے سے اپنے اچھے اور برے کو بخوبی سمجھتا ہے۔

ایسے میں پاکستان دشمن ممالک بالخصوص انڈیا، اسرائیل اور پاکستان دشمن افغانی وطن میں موجود غداروں کو استعمال کر کے سوشل میڈیا کے سہارے پاکستان کو طالبان کی مداخلت کے حوالے سے بدنام کر رہے ہیں۔ یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ امریکہ بہادر ہی ایسے معاملات کی پشت پناہی کر رہا ہو کہ پاکستان کو عالمی سطح پر پابندیوں کا شکار اور مرہون منت رکھا جائے۔ اسی لئے وطن دشمن طاقتوں کی طرف سے سماجی روابط کی ویب سائٹس فیس بک، ٹویٹر اور یو ٹیوب پر افواج پاکستان کو بدنام اور منفی پروپیگنڈا سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

گو کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستانی حکومت اس حوالے سے الرٹ بھی ہے مگر معاملہ اتنا معمولی نہ ہے کہ نظر انداز کر دیا جائے۔ ایسے میں حکومت کو وطن دشمن غداروں کا سر ڈسنے سے قبل کچلنا ہوگا اور سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے ٹرینڈز کا بھرپور جواب دینا ہوگا کہ 2021 کا پاکستانی نوجوان کسی دوسرے ملک کے معاملات سے زیادہ وطن عزیز سے محبت کرتا ہے آج کا جوان ملک میں امن و امان کے استحکام، مضبوط معیشت، سائنس، تعلیم و طب کے میدان میں بہتری کا خواہاں ہے۔ اور کسی کا آلہ کار بننے کی بجائے ملکی دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر وطن دشمن طاقتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ہمہ وقت تیار بھی ہے۔ دنیا کو آج کے پاکستانی کو بے جا پابندیاں لگے حالات سے پہلے جون ایلیاء کے شعر سے جان لینا چاہیے کہ

وہ شور حشر ہے اس کی گلی میں
میری فریاد ماری جا رہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments